’امریکی فوجیوں پر حملہ ہو یا بحری جہاز پر، امریکا اسرائیل سے کبھی کوئی سوال نہیں کرتا‘

شائع June 17, 2025

اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی کبھی نہ ڈوبنے والی کشتی یعنی لازوال اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب انتہائی خوفناک حد تک درست نشانے پر لگنے والے ایرانی میزائل اسرائیل کے مشہور آئرن ڈوم نظام کو چیر کر امریکا کے مضبوط اتحادی کے دل پر برس رہے ہیں۔ ایران کے لیے خطرے کے طور پر شروع ہونے والی جنگ اب اسرائیل کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب اسرائیلی حملے میں اہم عسکری اہلکاروں کے جانی نقصانات کے باوجود ایران نے جس قدر سخت ردعمل ظاہر کیا، اس نے مغربی دنیا کو حیرت میں مبتلا کیا۔ یہاں بہت کچھ خطرے میں ہے، بالخصوص امریکا کی ساکھ اور اثر و رسوخ داؤ پر لگا ہے۔

اس تمام افراتفری میں ڈونلڈ ٹرمپ فخریہ کہتے نظر آتے تھے کہ امریکا دنیا کا بہترین فوجی ساز و سامان تیار کررہا ہے اور اس نے یہی سامان اسرائیل کو دیا ہے۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے استعمال کیے جانے والے دو یا تین امریکی ساختہ ایف-35 اسٹیلتھ طیارے بھی اس تصادم میں تباہ ہوئے ہیں۔ ایرانی ذرائع سے آنے والی ان خبروں کی کسی آزاد ادارے نے اب تک تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن اگر ایک بھی ایف-35 طیارہ گرا ہے تو یہ مغربی ملٹری انجینئرز اور ذاتی طور پر ٹرمپ کی ناقابلِ بیان تضحیک ہوگی۔

یہ بات اپنے آپ میں ہی کافی حیران کُن ہے کہ بھاری پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ایران جس کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے، طاقتور دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے مضبوط دفاع بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ایک باوقار جنگی طیارے کو گرانے کے عالمی اسلحے کی مارکیٹ پر نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکی تجزیہ کار پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپ میں بھارتی نقصانات کا ذمہ دار فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کو ٹھہراتے ہوئے خوش تھے۔ لیکن اب امریکا کو تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

کیا اسرائیل اب بھی مغرب کے کسی کام کا ہے یا یہ اب صرف سرد جنگ کی باقیات میں سے ایک بن چکا ہے؟ سرد جنگ کے دوران، اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں مغرب کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا خاص طور پر اس نے دو بڑی جنگوں میں سوویت حمایت یافتہ عرب ممالک کو شکست دی۔ یہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر، مغرب نے خاموشی سے اسرائیل کو جوہری طاقت بننے کی اجازت دی۔

اب جب وہ ایران پر ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کرنے پر تنقید کرتے ہیں تو مغرب کا یہ رویہ منافقانہ لگتا ہے جبکہ ایران میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مذہبی اصول موجود ہے۔ لیکن پھر وہی بات ہے کہ عراق کو بھی انہوں نے اسی طرح تباہ کیا، یہ جھوٹ بولا کہ صدام حسین ایٹمی بم تیار کررہے تھے۔

جب اسرائیل نے ڈیمونا میں اس کے خفیہ جوہری پروگرام کو بے نقاب کرنے والے سابق نیوکلیئر ٹیکنیشن موردیچائی ونونو کو اغوا کیا تو اس وقت مغربی دنیا نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی۔ موردیچائی ونونو خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف تھے، انہوں نے 1986ء میں ایک برطانوی اخبار کے ساتھ معلومات شیئر کیں۔ اس کے بعد اسرائیل خفیہ ایجنسی موساد نے کسی طرح انہیں اٹلی بلایا جہاں انہیں نشہ آور اشیا دی گئیں اور اسرائیل منتقل کیا گیا۔

چند ترقی پذیر ممالک اسرائیل کو دیوتا یا خدا جانتے ہیں اور اس کی ناقابلِ تسخیر عسکری اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو رشک سے دیکھتے ہیں۔ اب اس میں ان کا بھی کوئی قصور نہیں۔ درحقیقت ایک ملک تو اسرائیلی طرز کے قتل سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر اسی طرز پر عمل کرتے ہوئے بیرونِ ملک اپنے مخالفین کو قتل کرنا شروع کردیا۔

اسرائیل کو کبھی بھی فائیو آئیز ممالک (امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا پوسٹ وار اینگلو سیکسن انٹیلی جنس اشتراک کا اتحاد) میں اغوا یا قتل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ موردیچائی ونونو کو اٹلی کے شہر روم بلایا گیا جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا۔

1948ء میں ریاست کی مذموم تخلیق سے پہلے ہی اسرائیل کو قوانین توڑنے کی اجازت تھی۔ سچ تو ہے کہ صہیونی انتہا پسندوں نے فرینکنسٹائن کے مونسٹر کی طرح رفتار دکھاتے ہوئے 1946ء میں یروشلم میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں درجنوں برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔

بعدازاں اسرائیل اپنے سرپرست کے قہر سے بچ نکلا کہ جب 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ میں اس نے بحیرہ روم میں جنگ پر نظر رکھنے والے امریکی جاسوسی بحری جہاز یو ایس ایس لیبرٹی پر حملہ کیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس حملے میں امریکی ساختہ جنگی طیارے اور موٹر ٹارپیڈو کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے امریکی جہاز میں سوار 34 امریکی کرو ارکان کو ہلاک کیا جبکہ تقریباً 200 افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹس بتاتی ہیں کہ اسرائیل 1950ء کی دہائی سے امریکی جوہری راز چرا رہا تھا اور خفیہ طور پر بم بنا رہا تھا۔ برطانیہ اور امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک کی حکومتوں نے آنکھیں بند کر لینے کو ترجیح دی۔ یاد رہے کہ امریکا نے جولین اور ایتھل روزن برگ کو اس شبے میں سزائے موت دی تھی کہ وہ امریکا کے جوہری راز سوویت یونین کو پہنچا رہے تھے۔ لیکن تمام معاملات میں اسرائیل سے کوئی سوال نہیں کیا گیا۔

اس لیے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا قدرے عجیب اقدام تھا کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی توقعات سے زیادہ مشکل جنگ میں امریکا سے براہ راست شمولیت کی درخواست کررہے ہیں۔ اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں وہ کافی بےچین نظر آئے اور انہوں نے ٹرمپ کو براہ راست جنگ میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔

نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ 1983ء میں بیروت میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے کے پیچھے ایران کا ہاتھ تھا جس میں تقریباً 300 امریکی اور فرانسیسی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ نیتن یاہو نے ٹرمپ کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ ایران نے 2024ء کی انتخابی مہم کے دوران ان پر قاتلانہ حملے کیے تھے۔

امریکی دفاعی تجزیہ کاروں بشمول سابق انٹیلی جنس اور آرمی آفیسرز، سب نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنی ذاتی جنگ میں امریکا کو دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کو باور کروایا ہے کہ 2003ء سے مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں واشنگٹن پہلے ہی 120 کھرب ڈالرز جھونک چکا ہے جبکہ ملک کا موجودہ قرضہ 340 کھرب ڈالرز ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے سابق فوجی افسر کرنل ڈگلس میک گریگر نے ایکس پر پوسٹ کیا، ’7 کروڑ 70 لاکھ امریکیوں نے صدر ٹرمپ کو ووٹ دیا کیونکہ انہوں نے سمندر پار تنازعات کو ختم کرنے اور دنیا کو تیسری جنگِ عظیم کی جانب جانے سے روکنے کا وعدہ کیا تھا‘۔

انہوں نے اندازہ لگایا کہ جزیرہ خرگ جہاں سے ایران کی تیل کی 90 فیصد برآمدات ہوتی ہیں یا بندر عباس ٹرمینل پر صرف ایک اسرائیلی حملہ، ایران کو آبنائے ہرمز کو بند کرنے پر اکسا سکتا ہے جہاں سے 20 فیصد عالمی تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ امریکا پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے، سپلائی چین منقطع ہوجائے گا اور افراط زر میں اضافہ ہوگا۔

کرنل ڈگلس میک گریگر کہتے ہیں، ’راتوں رات گیس کی قیمت 7 ڈالر فی گیلن کی سطح کو چھو جائے گی۔ کام کرنے والا ہر خاندان اس کی زد میں آئے گا۔ ٹرک والے کھانا نہیں پہنچا پائیں گے۔ معیشت میں گرواٹ آئے گی۔ کس لیے؟ صرف اس لیے کہ ایک جنونی جنگ کا آغاز کرنے والا اسرائیل جوہری جنگ کے امکانات کی وجہ سے امریکیوں کو ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں گھسیٹ سکتا ہے؟‘

امریکا کے متحدہ عرب امارات، قطر سمیت دیگر خیلجی ممالک میں 40 ہزار سے فوجی تعینات ہیں۔ کرنل ڈگلس میک گریگر نے خبردار کیا کہ وہ آسان ہدف ہیں۔ ’ایک ایران کے شہید-136 ڈرون کی قیمت 20 ہزار ڈالرز ہے۔ امریکی پیٹریاٹ میزائلوں کی لاگت 40 لاکھ ڈالرز فی انٹرسیپٹر ہے۔ اب حساب آپ خود کیجیے۔ ہم اپنے میزائل کا ذخیرہ تیزی سے استعمال کریں گے اور مالی نقصان اٹھائیں گے جبکہ امریکی سپاہیوں کی لاشیں تابوت میں واپس آئیں گی‘۔

بہت سے دیگر سابق عسکری اور انٹیلی جنس افسران نے بھی انہیں خدشات کا اظہار کیا۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کیا کریں گے؟ کیا وہ حتمی خطرناک اقدام اٹھانے میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت کریں گے یا وہ پُرامن حل کی جانب جائیں گے جس کی تجویز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے فون کال کے دوران دی تھی؟

کرنل ڈگلس میک گریگر نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی تجویز دی جہاں امریکا واضح طور پر ایران، اسرائیل یا خطے کے کسی بھی ملک کی تباہی کی مخالفت کرے۔ کیا اس کے علاوہ کوئی راہ ہے؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 18 جون 2025
کارٹون : 17 جون 2025