پہلگام واقعے کے فوراً بعد بھارت نے 7 مئی کو ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، ان حملوں کے دوران 6 مختلف مقامات پر 24 دھماکے ہوئے، جن میں 40 پاکستانی شہری شہید اور 121 زخمی ہوئے، جب کہ 13 فوجی جوان بھی شہید اور 78 زخمی ہوئے۔
پاکستان کی مسلح افواج نے فوری اور مؤثر جوابی کارروائی کرتے ہوئے تین رافیل طیاروں سمیت 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے، اور لائن آف کنٹرول پر موجود بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹرز اور چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔
10 مئی کو بھارت نے تین پاکستانی فضائی اڈوں پر میزائل داغے، جس کے ردِعمل میں پاکستان نے ’آپریشن بنیان المرصوص‘ کا آغاز کیا اور بھارت کے میزائل ڈیفنس سسٹم سمیت کئی فوجی تنصیبات کو تباہ کردیا، بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد امریکی ثالثی کے نتیجے میں اسی روز دونوں ممالک کے درمیان شام 4 بج کر 30 منٹ پر سیز فائر کردیا گیا۔
وزارتِ تجارت کے ترقیاتی بجٹ 26-2025 پر رپورٹ، وفاقی اردو یونیورسٹی میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتال اور طلبہ یونین پر پابندی کے معاملے پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش
اپ ڈیٹ16 مئ 202503:41pm
سینیٹ میں اراکین نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر افواج پاکستان کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح افواج نے ثابت کر دیا کہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، اراکین نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن کی کسی بھی چال کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔
سینیٹ اجلاس کی صدارت پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کی، پاک - بھارت جنگ کے دوران دشمن کے دانت کھٹے کرنے اور اس سے درپیش صورتحال پر بحث آج بھی ایوان میں جاری رہی، سینیٹر علی ظفر، سینیٹر عرفان صدیقی، سینیٹر راجا ناصر عباس، سینیٹر عبدالقادر، سینیٹر عون عباس اور دیگر اراکین نے بحث میں حصہ لیا۔
ارکان سینیٹ کا کہنا تھا کہ بھارت کی تاریخ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے واضح ہے، نیپال ہو، بھوٹان ہو، پاکستان یا سری لنکا، بھارت کے کسی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں، بھارت کو کہا گیا کہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کروائے تاہم وہ نہیں مانے، پاکستان میں تباہی بھارت کی خام خیالی ہے، بھارت کبھی پاکستان کو غزہ نہیں بنا سکتا اور یہ پیغام بھارت کو اچھی طرح مل گیا۔
ارکان سینیٹ نے کہا کہ اس جنگ کے دوران جو یکجہتی عوام اور پارلیمنٹ نے دکھائی اس سے پہلے کبھی نہیں دکھائی، ہماری افواج نے یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبے سے لڑی جاتی ہیں، ہمیں فخر ہے اپنے دوست ممالک پر جو مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، ہمیں اپنے شہدا پر فخر ہے، ہم ان کے لیے دعاگو ہیں، ہمیں اپنی افواج اور میڈیا پر فخر ہے جنہوں نے پروفیشنل انداز میں کام کیا۔
انہوں نے کہا کہ مودی کو اپنے رافیل طیاروں اور ہتھیاروں پر بڑا مان تھا، بھارت نے بزدل قوم کی طرح رات میں حملہ کیا اور ہماری جوابی کارروائی سے وہ گھبرا گئے، ہم نے ایک رات میں ثابت کیا کہ پاک فضائیہ بہترین اور پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کی طرح نہیں ہیں کہ شہریوں پر حملہ کریں، پاکستان کے جوابی حملے سے خوفزدہ ہو کر مودی نے کہا ہم جنگ بندی چاہتے ہیں، مودی کا خیال تھا کہ کشمیر کا مسئلہ دبا دیا جائے گا مگر یہ ابھر کر بین الاقوامی سطح پر آگیا، بھارت نے کہا ہم ایک ذمہ دار قوم نہیں ہیں، مگر ہم نے دکھا دیا کہ ہم ایک جوہری طاقت ہیں اور ایک ذمہ دار قوم ہیں۔
اس سے قبل وزارتِ تجارت کے ترقیاتی بجٹ 26-2025 پر رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی گئی، پاکستان بیت المال ترمیمی بل 2024 پر کمیٹی رپورٹ، وفاقی اردو یونیورسٹی میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر طلبہ اور عملے کی ہڑتال اور طلبہ یونین پر پابندی کے معاملے پر بھی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی گئی۔
اس کے علاوہ راجا رستی تا عمرکوٹ سڑک کی عدم تکمیل اور ٹول ٹیکس کے معاملے پر رپورٹس بھی ایوان میں پیش کی گئیں۔ سینیٹ کا اجلاس پیر سہ پہر 4 بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین خود کرے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس
اپ ڈیٹ18 جون 202502:08pm
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر سکتے ہیں، لیکن وہ کسی بھی فریق کو یہ پیشکش قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس سے میڈیا بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ بھارت مسلسل صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کیوں کر رہا ہے۔
ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے، ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین خود کرے، وہ مدد کی پیشکش کرتے ہیں اور یہ اس پر منحصر ہے کہ جس کو یہ پیشکش کی جا رہی ہے، وہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں‘۔
یہ وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتی ہے، خاص طور پر گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپ کے بعد جس سے خطہ جوہری تصادم کے قریب پہنچ گیا تھا، لیکن امریکا یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس کے اثر و رسوخ کی حدیں موجود ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کو ’ہزار سالہ‘ تنازع قرار دیتے ہوئے حالیہ ہفتوں میں کئی بار اس کے حل میں مدد کی پیشکش کی ہے، تاہم بھارت کا دیرینہ موقف ہے کہ کشمیر ایک دو طرفہ معاملہ ہے، جس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں۔
ٹیمی بروس نے مزید کہا کہ ’میں کسی دوسرے ملک کے فیصلوں کی نوعیت پر تبصرہ نہیں کروں گی، یہ ان کا اپنا معاملہ ہے‘، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اس معاملے پر بھارت کے اندرونی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک دلچسپ اور اہم دور میں جی رہے ہیں، جہاں ہمارے پاس ایک ایسا لیڈر ہے جو فرق پیدا کرسکتا ہے، اور وہ یہ فرق پیدا کرنے کے لیے مخلص بھی ہے، وہ اپنی مدت صدارت کو کسی بھی اور مقصد کے لیے مخصوص کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے امن اور امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کے مقصد کو اپنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں کسی دوسرے ملک کے فیصلے کی نوعیت پر بات نہیں کروں گی، یہ ان کا اپنا اختیار ہے، لیکن میرا خیال ہے ہم سب شکر گزار ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو مدد کرنا چاہتا ہے‘۔
اگرچہ ان بیانات میں کسی بھی فریق پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی گئی، لیکن ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کا خواہاں ہے، چاہے بھارت اس پیشکش کو قبول کرے یا نہ کرے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ 35 منٹ طویل ٹیلیفونک گفتگو کے دوران اپنا موقف واضح طور پر پیش کیا، بھارتی سیکریٹری خارجہ
اپ ڈیٹ18 جون 202512:23pm
بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے تنازع میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق وکرم مسری نے بدھ کو بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 35 منٹ طویل ٹیلی فونک گفتگو کے دوران اپنا موقف واضح طور پر پیش کیا۔
بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کی رپورٹ کے مطابق وکرم مسری نے ویڈیو بیان میں بتایا ہے کہ جی 7 سربراہ اجلاس کی سائیڈ لائنز پر نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو کی، جو آدھے گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔
وکرم مسری کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نے بات چیت کے دوران امریکی صدر کو بھارت کے آپریشن ’سندور‘ کے بارے میں آگاہ کیا اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ مسائل پر کبھی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔
وکرم مسری کے مطابق وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کو واضح کیا کہ اس پوری کارروائی کے دوران کسی بھی وقت کسی بھی سطح پر بھارت، امریکا تجارتی معاہدے یا پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکی ثالثی کے بارے میں امریکا سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ مودی نے ٹرمپ کو بتایا کہ فوجی کارروائی روکنے پر بات چیت بھارت اور پاکستان کے درمیان براہِ راست ہوئی، جو دونوں ممالک کی افواج کے درمیان رابطے کے موجود ذرائع کے ذریعے کی گئی اور یہ اقدام پاکستان کی درخواست پر اٹھایا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نریندر مودی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی، نہ اب کرے گا اور نہ آئندہ کبھی کرے گا، اس معاملے پر بھارت میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے‘۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کو سمجھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت سے اظہار یکجہتی کیا۔
وکرم مسری کے مطابق امریکی صدر نے نریندر مودی کو مختصر قیام کی دعوت دی تاہم دیگر مصروفیات کے سبب مودی نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ نے دعویٰ کیا کہ جی 7 اجلاس کی سائیڈ لائنز پر بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان ملاقات طے تھی، تاہم صدر ٹرمپ کی قبل از وقت امریکا واپسی کے سبب دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات نہیں ہوسکی، جس کے بعد صدر ٹرمپ کی درخواست پر دونوں رہنماؤں نے فون پر گفتگو کی۔
وکرم مسری نے کہا کہ ’22 اپریل کو پہلگام حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فون پر نریندر مودی سے تعزیت کی تھی اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد دونوں رہنماؤں میں اب بات ہوئی ہے‘۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کریں گے اور ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔
یاد رہے کہ پہلگام حملے کے بعد گزشتہ ماہ 6 مئی کو بھارت کی جانب سے پاکستان پر بلاجواز حملے میں معصوم شہریوں کی شہادت کے بعد پاکستان نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے 6 لڑاکا طیارے اور متعدد ڈرونز تباہ کردیے تھے۔
بعدازاں 10 مئی کو پاکستان نے جوابی کارروائی کے دوران معرکہ حق میں ’آپریشن بنیان المرصوص‘ کا آغاز کرتے ہوئے بھارت کو فتح میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا اور بھارت کی کئی ایئربیسز سمیت دفاعی تنصیبات کو تباہ کردیا تھا۔
پاکستان کی دندان شکن جوابی کارروائی کے بعد بھارت نے سیز فائر کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے مداخلت کی درخواست کی تھی جس کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی حکام سے رابطہ کرکے انہیں سیز فائر پر آمادہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کا کریڈٹ لے چکے ہیں۔
سندھ طاس سمیت علاقائی امن سے متعلق اہم معاہدوں، عالمی ذمہ داریوں کی پاسداری کی جائیگی، شہباز شریف کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کی کوششیں تیز کرنے کا اعلان
اپ ڈیٹ17 جون 202504:28pm
وزیر اعظم شہباز شریف نے ’صحراؤں اور قحط سے نمٹنے کے عالمی دن‘ کے موقع پر اپنے پیغام میں پاکستان کے آبی حقوق کے دفاع کے عزم کو دہراتے ہوئے دریائے سندھ کو پاکستان کے عوام کی ’لائف لائن‘ قرار دیا ہے۔
یہ دن ہر سال 17 جون کو منایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں قحط کے خلاف ہنگامی صورتحال کو اجاگر کرتا ہے۔
کلائمٹ رسک انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان ان 10 ممالک میں سرفہرست ہے، جو 2022 میں شدید موسمی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، جب کہ پاکستان کی 68 فیصد سے زائد زمین اب بنجر یا نیم بنجر قرار دی جا چکی ہے۔
بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں طویل قحط سالی نے کمزور طبقات کو مزید غربت میں دھکیل دیا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک سنگین مسئلہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے میں ایسے کسی اقدام کی کوئی گنجائش نہیں، اور دریائے سندھ کا پانی پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگی کا دار و مدار ہے، اور پاکستان کے پانی کے حق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم نے علاقائی امن سے متعلق اہم معاہدوں سمیت بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کے عزم کا بھی اعادہ کیا، انہوں نے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کی کوششیں تیز کرنے کا اعلان بھی کیا۔
زمین سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ ہمارے ملک کا تقریباً 50 فیصد رقبہ مختلف اقسام کی زوال پذیری کا شکار ہے، جس کی وجوہات میں جنگلات کی کٹائی، زیادہ چرائی، سیم و تھور، پانی کی زیادتی اور غیر منصوبہ بند شہری ترقی شامل ہیں۔
بیان میں 2022 کے سیلاب اور بار بار خشک سالی کا حوالہ دے کر مسئلے کی شدت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان مسائل کو موسمیاتی تبدیلی نے مزید سنگین بنا دیا ہے جس نے قحط، جنگلات کی آگ اور سیلابوں کی شدت اور تسلسل کو بڑھا دیا ہے۔
انہوں نے زمین کو پاکستان کی غذائی تحفظ، پانی کی دستیابی، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور دیہی روزگار کے لیے اہم اثاثہ قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد صحراؤں (یو این سی سی ڈی) کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ کلومیٹر سے زائد زرخیز زمین زوال پذیری کا شکار ہو جاتی ہے، اور 2025 سے 2030 تک بحالی کے لیے روزانہ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہو گی۔
وزیراعظم نے اس سال کے عالمی دن کے موضوع ’زمین کو بحال کریں، مواقع کھولیں‘ کو بروقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ زمین کی بحالی نہ صرف موسمیاتی لچک کے لیے بلکہ سماجی، معاشی اور ماحولیاتی فوائد کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
انہوں نے حکومت کی موسمیاتی لچک کی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پائیدار زمین کا انتظام اور ماحولیاتی نظام کی بحالی حکومت کے کلائمٹ ایجنڈے کے بنیادی ستون ہیں۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ گرین پاکستان پروگرام کی توسیع جیسے اقدامات کے تحت 2 ارب 20 کروڑ سے زائد پودے لگائے جا چکے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی اور قومی موافقتی منصوبہ پر بھی عمل درآمد کر رہے ہیں تاکہ مربوط زمینی استعمال کو فروغ دیا جا سکے اور ماحولیاتی نظام کی سالمیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ پالیسی فریم ورک اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد صحراؤں کے تحت ہماری وابستگیوں سے ہم آہنگ ہے، جس کا پاکستان 1997 سے رکن ہے۔
انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ زمین کی بحالی اور آئندہ نسلوں کے لیے موسمیاتی لحاظ سے محفوظ مستقبل کی تعمیر میں مشترکہ کردار ادا کریں۔
واضح رہے کہ مارچ میں محکمہ موسمیات پاکستان نے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں کم بارش کے باعث قحط کے خدشے کی وارننگ جاری کی تھی۔
بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے پر عمل درآمد کیا تو مجبوراً پاکستان کو میدان جنگ میں اترنا پڑے گا، جرمن نیوز چینل ڈی ڈبلیو کو انٹرویو
اپ ڈیٹ15 جون 202508:16pm
پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے پانی روکنا واقعی جنگ کا باعث بن سکتا ہے ، سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی پاکستان کی ریڈ لائن ہے۔
سابق وزیرخارجہ اور پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے جرمنی کے نیوز چینل ڈی ڈبلیو کو انٹرویو میں کہا کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا فیصلہ واپس لینا پڑے گا، یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے، عمل درآمد تو دور کی بات ہے، صرف یہ دھمکی دینا کہ بھارت پاکستان کے پانی کو روکے گا، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حق دفاع کی تو دور کی بات یہ تو ہماری بقا کا مسئلہ ہے، اگر ہم اپنے لوگوں کو پینے کے لیے پانی کا فراہم نہ کرسکیں توبطور ریاست ہماری ذمے داری ہے کہ میں انہیں ان کا حق دلواؤں چاہے اس کے لیے ہمیں جنگ کیوں نہ چھیڑنی پڑے، اور یہی ( پانی ) ہماری ریڈ لائن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جن میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں سب سے بڑا ثبوت کلبھوش یادو کی گرفتاری ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ اس کی وجہ سے ہم جنگ چھیڑ رہے ہیں لیکن بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے پر عمل درآمد کیا تو مجبوراً پاکستان کو جنگ کے میدان میں اترنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ پر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور نئی دہلی کے غیر ثابت شدہ الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سفارتی مہم شروع کرنےکیلئے پارلیمانی وفد تشکیل دیا تھا۔
بلاول بھٹو کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے پارلیمانی وفد میں حنا ربانی کھر ، خرم دستگیر ، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری، بشریٰ انجم بٹ، سینئر سفیر جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔
پارلیمانی وفد امریکا اور برطانیہ کا دورہ کرنے کے بعد ان دنوں بیلجیم کے دورے پر ہے۔
پانی بند کرنے کی بھارتی دھمکی پاکستان کو اشتعال دلانے کی کوشش ہے، پاکستان جامع مذاکرات پر یقین رکھتا ہے، بلاول بھٹو زرداری کی برسلزمیں گفتگو
شائع14 جون 202506:28pm
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پارلیمانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان امن کا خواہشمند ہے، جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، پانی بند کرنے کی بھارتی دھمکی پاکستان کو اشتعال دلانے کی کوشش ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے یورپین پریس کلب برسلز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک -بھارت کشیدگی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی جارحیت کے حوالے سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کے لیے وفد تشکیل دیا، پارلیمانی وفد کا دورہ انتہائی کامیاب رہا اور عالمی برادری نے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے بھارتی اقدام سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کی پاکستانی پیشکش کو سراہا ہے۔
سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ تنازع کشمیر کے پُر امن حل کے لیے سلامتی کونسل میں بھی بات کی، پہلگام واقعہ پر پاکستان نے بھارت کو غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کی، کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل صرف مذاکرات اور سفارتکاری سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تنازع کی شدت میں کمی اور جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے حوالے سے عالمی برادری کے کردار کا خواہاں ہے تاکہ جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کو بحال کیا جاسکے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ تنازع کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں اور نہ ہی دہشتگردی سمیت کسی بھی تنازع کا کوئی فوجی حل ہو سکتاہے، حالیہ کشیدگی کے بعد جنگ بندی کے دوران صبر وتحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے، تاہم بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیز اقدامات کئے جا رہے ہیں، جنگ بندی کے بعد کشیدگی میں کمی نہیں ہوئی۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت نے غیر قانونی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں دہشتگرد حملے کی تحقیقات کے بغیر جلد بازی میں جنگ چھیڑ دی اور 5 دن تک بحران کی شدت رہی، بھارت نے پاکستان پر متعدد حملے کیے، جس کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی حکومت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ کو معطل کیا اور 24 کروڑ پاکستانیوں کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیں، پاکستان کا پانی بند کرنے کا اقدام اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے، پانی بند کرنے کے اقدامات کے بعد ہمارے پاس بھارت کی آبی دہشتگردی کو کھلی جنگ تصور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں مسئلہ کشمیر اور دہشتگردی پر لڑنے کی بجائے پانی پر لڑنے کےلیے مجبور کیا گیا، بھارتی اقدامات دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان پانی کی جنگ کی بنیاد بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ سمیت سلامتی کونسل اور دیگر فورمز پر تنازع کشمیر کے پر امن حل کا مطالبہ کرتا آیا ہے، تنازع کشمیر جو کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں بھی شامل ہے اس کو پُر امن طور پر حل کیا جائے لیکن بھارتی حکومت نے ہمیشہ اس سے بھی انکار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارتی سطح پر دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل پر تیار کیا جاسکتا ہے، پاکستان ہمیشہ مذاکرات کا حامی رہا جبکہ بھارت نے مذاکرات سے مسلسل انکار کیا ہے جو بھارت کے منفی اقدامات کی عکاسی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم سمیت ان کی اعلیٰ قیادت نے کشیدگی میں کمی کی بجائے ہمیشہ کشیدگی کو بڑھانے کے بیانات دیے، انہوں نے کہا کہ ثالثی کی تجویزدرست ہے لیکن تنازعات کا جامع حل صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
غزہ اور فلسطین کو ہم نہیں بھولے، یہ صورتحال بڑی خطرناک ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ کا ردعمل
شائع13 جون 202509:21pm
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے اسلامی ملک پر بھیانک حملہ کیا ہے، غزہ اور فلسطین کو ہم نہیں بھولے، یہ صورتحال بڑی خطرناک ہے، پاکستان نے صہیونی ریاست کے مظالم کی کھل کر مذمت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ آج علی الصبح اسرائیل نے ایران پر بڑا حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی سمیت 4 اعلیٰ فوجی افسران اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوگئے، اسرائیل نے حملے میں ایران کے جوہری اور عسکری مراکز کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ایرانی میڈیا کے مطابق حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں شہری شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے ایران پر رات کے وقت کیے گئے حملوں سے اپنی تلخ اور تکلیف دہ تقدیر رقم کر دی ہے۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آج نائب وزیراعظم و وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں، صہیونی ریاست نے اسلامی ملک پر بھیانک حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کے لیے مشکل فیصلے ضروری تھے، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی روزانہ باتیں ہوتی تھیں، آج پاکستان نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہے بلکہ ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے میکرو اکنامک اعشاریے ٹھیک ہو رہے ہیں، مہنگائی میں کمی ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائرمیں بھی اضافہ ہو رہا ہے، کرنسی مضبوط اور پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے۔
اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ پائیدار ترقی کیلئے اصلاحات ناگزیر ہیں، ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا تھا، پاکستان کی گلوبل ریٹنگ بہتر ہوئی، اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 2017 میں ایک حکومت کو لانے کے لیے جو تجربات کیے گئے اور پھر اس سے جو ملک کا نقصان ہوا وہ سب نے دیکھا۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے تھے پاکستان ڈیفالٹ کرجائے، 57 اسلامی ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس اٰیٹمی پاور بھی ہے اور میزائل بھی ہیں۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کا جھوٹا الزام لگا کر سندھ طاس معاہدے کو یکرفہ طور پر معطل کیا ، انھوں نے جارحیت دکھائی تو پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے ان کے6 طیارے مار گرائے تھے۔
نائب وزیراعظم نے کہا تھا کہ بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو کم کیا، واہگہ بارڈر کو بند کیا، جو پاکستانی وہزے لے کر و ہاں گئے تھے انھیں بھی نکال دیا، جس کے بدلے میں ہم نے بھی پھر وہی اقدامات اٹھائے اور بارڈرز بند کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی ایئرلائنز کیلئے فضائی حدود بند کی ، ان کے شہریوں کو بھی پاکستان سے نکلنے کے احکامات دیے گئے۔
پاک بھارت جنگ بندی کیلئے عالمی برادری کی کوششیں لائق تحسین ہیں، برسلز میں گفتگو
شائع13 جون 202508:37pm
چیئرمین پیپلزپارٹی اور پارلیمانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی کیلئے عالمی برادری کی کوششیں لائق تحسین ہیں، ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
ڈان نیو زکے مطابق پاکستانی پارلیمانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے برسلز میں یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت جنگ بندی کیلئے عالمی برادری کی کوششیں لائق تحسین ہیں، بھارت نے پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حملوں کے جواب میں پاکستان نے حق دفاع استعمال کیا، بھارت نے پاکستان کی پہلگام واقعے کی تحقیقات کی پیشکش کے جواب میں بلااشتعال جارحیت کی مگر
کشیدگی کے دوران پاکستان نے جارحانہ اقدامات کے جواب میں تحمل سے کام لیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو غیرقانونی معطل کیا، مگر پاکستان تمام مسائل گفتگو کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے، انسداد دہشت گردی،کشمیر کے معاملے پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے سربراہ سفارتی وفد نے کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے سفارتی وفد کے اراکین کے ہمراہ لندن پہنچنے پر ان خیالات کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،
واضح رہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ پر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور نئی دہلی کے غیر ثابت شدہ الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سفارتی مہم شروع کرنےکیلئے پارلیمانی وفد تشکیل دیا تھا۔
بلاول بھٹو کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے پارلیمانی وفد میں حنا ربانی کھر ، خرم دستگیر ، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری، بشریٰ انجم بٹ، سینئر سفیر جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔
پارلیمانی وفد امریکا اور برطانیہ کا دورہ کرنے کے بعد ان دنوں بیلجیئم کے شہر برسلز میں ہے۔
ہم پاکستان اور بھارت کو اکٹھا کریں گے، ان کی کشمیر پر طویل عرصے سے دشمنی ہے، میں نے ان سے کہا 'میں آپ کا ثالث بنوں گا اور میں کچھ بھی حل کر سکتا ہوں۔' امریکی صدر
شائع12 جون 202511:58pm
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع میں ثالثی کی پیشکش کردی۔
ڈان نیوز کے مطابق ٹرمپ نے دہائیوں کی شدید ترین فوجی محاذ آرائی کے بعد دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ بندی کرانے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر کوشش کرنے کی پیشکش کی تھی۔
دونوں ممالک کے رہنماؤں کو امن حاصل کرنے پر سراہتے ہوئے ایک پیغام میں، انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر دیکھوں گا کہ کیا ’ہزار سال‘ کے بعد کشمیر کے بارے میں کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کی پیشکش کے تناظر میں امریکا کے اٹھانے والے اقدامات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، محکمہ خارجہ کی ترجمان تامی بروس نے کہا،’ (ٹرمپ) واحد ایسے شخص رہے ہیں جو مخصوص لوگوں کو میز پر لائے ہیں تاکہ ایسی بات چیت کی جا سکے جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ممکن ہوسکتی ہے۔’
جمعرات کو بل پر دستخط کرنے کی تقریب کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ’ ایک جنگ کو روکا’۔
انہوں نے کہا ’پاکستان اور بھارت جوہری جنگ کی طرف بڑھنے والے تھے لیکن میں نے انہیں روکا، میں نے دونوں رہنماؤں کو فون کیا، ان سے بات کی اور کہا کہ اگر آپ جنگ کریں گے تو آپ ہمارے ساتھ تجارت نہیں کر سکیں گے۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’ وہ سمجھ گئے، میں نے فون کالز اور تجارت کے ذریعے اس جنگ کو روکا۔’
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت واشنگٹن میں ایک تجارتی معاہدے پر گفت و شنید کر رہا ہے، اور ایک پاکستانی وفد’ میرے خیال میں اگلے ہفتے’ پہنچے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں، ٹرمپ نے کہا،’ ہم پاکستان اور بھارت کو اکٹھا کریں گے، ان کی کشمیر پر طویل عرصے سے دشمنی ہے، میں نے ان سے کہا ’میں آپ کا ثالث بنوں گا اور میں کچھ بھی حل کر سکتا ہوں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام حملے کے بعد ، جس میں 26 سیاحوں کی ہلاکت ہوئی تھی، چار روزہ مختصر جنگ ہوئی اور بالآخر امریکی مداخلت پر جنگ بندی پر فریقین رضامند ہوئے۔
اس ماہ کے اوائل میں، پاکستان نے امریکا میں ایک وسیع البنیاد سفارتی مہم شروع کی تھی تاکہ بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا جا سکے، اور وہاں نئی دہلی کی بڑھتی ہوئی لابنگ کی موجودگی کا مقابلہ کیا جا سکے، اس سلسلے میں پاکستانی سفارتی ٹیم اب برسلز کے دورے پر ہے۔
پاکستانی سفارتی وفد میں سابق وزرائے خارجہ بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر اور خرم دستگیر، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری اور بشریٰ انجم بٹ، کے ساتھ ساتھ سینئر سفیر جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔
بھارت نے یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کیخلاف ورزی کی، ہم بھارت کے ساتھ بات چیت کے زریعے تمام مسائل کا حل نکالنے کے خواہشمند ہیں، بلاول بھٹو زرداری
شائع12 جون 202505:22pm
پاکستان کے پارلیمانی وفد کے سربراہ و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے یکطرفہ طور پر کیے گئے فیصلے بین الاقوامی قوانین کےخلاف ورزی ہے، بھارت کے ساتھ بات کرکے کشمیر، دہشت گردی اور پانی کے مسائل حل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
برسلز میں یورپی پارلمینٹ کی ٹریڈ کمیٹی کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’کمیٹی کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کیا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بھارت کے ساتھ بات کرکے کشمیر، دہشت گردی اور پانی کے مسائل حل کرنے کے خواہشمند ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’نہ صرف آج کی ملاقات بلکہ یورپی یونین کے ساتھ پہلے کی ملاقاتیں بھی شاندار رہیں، یورپی یونین نے بھارت کے ساتھ تنازع کے دوران ہمارے لوگوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے، بین الاقوامی قوانین کے تحت ہم اپنا کام کر رہے ہیں، حالیہ تنازع کو دیکھا جائے تو عالمی قوانین کی خلاف ورزی پاکستان نے نہیں بلکہ ایک فریق (بھارت) نے کی ہے‘۔
پارلیمانی وفد کے رکن اور وفاقی وزیر مصدق ملک نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر بھارت کو سندھ طاس معاہدے سے نکل جانے کا حق دے دیا جائے جس کی ویسے بھی کوئی گنجائش موجود نہیں تو اس سے پاکستان کی 70 فیصد وہ آبادی جس کا انحصار اسی پانی پر ہے اُن کا سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح تو پوری دنیا میں پھر ہر کسی کو حق مل جائے گا کہ وہ بہتا ہوا پانی روک لے اور جو نیچے کی جانب ممالک ہیں انہیں تباہ و برباد کردیا جائے، جو ملک (بھارت) ہمارا پانی روکنے دھمکی دے رہا ہے ان کا تو اپنا ایک تہائی پانی کہیں اور سے آرہا ہے، اگر یہ بات چل پڑی تو سوچیں اُن کے ساتھ کیا ہوگا‘۔
مصدق ملک نے مزید کہا کہ ’ہمارا بنیادی کام اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود، خدمت کرنا اور معاشی ترقی کرنا ہے، مگر یہ بھی ذہن میں رہے اگر اُن (بھارت) کے لوگوں کا پانی روکا گیا تو اس طرف بھی تو غریب لوگ ہیں تو ان کا کیا ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہندوتوا کا بھوت ہمیں تو خیر کیا نقصان پہنچائے گا، پہلے ہم نے ان کے 2 جہاز، پھر 6 گرائے اور اب 60 جہاز گرا دیں گے، وہ مسئلہ نہیں ہے، ان کے اپنے بھی تو لوگ ہیں، ان کی اپنی بھی کھیتی باڑی ہے، ان کا بھی تو پانی بہتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے پاکستانی وفد نے یورپی یونین میں یہ بات رکھی کہ ’کوئی قوانین کی بنیاد پر بات کریں، اس دنیا کو وائلڈ ویسٹ نہ بنائیں، ہم انتہائی انکساری کے ساتھ یہاں آئے ہیں اور یہی کہہ رہے ہیں کہ امن کی بات کریں، چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ ڈائیلاگ کی بات کریں اور اس مسئلے کا حل نکالیں‘۔
وفد کے ہمراہ موجود سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ’چیئر آف دی یورپی پارلیمنٹ کی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیٹی کے ساتھ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل تھی، پاکستانی وفد نے بھارت کے ساتھ تنازعات پر کمیٹی کو بریفنگ دی اور سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا‘۔
سابق سفیر نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کی ریویو کمیٹی کا جی ایس پی پلس کے حوالے سے اجلاس شیڈول ہے، ہم نے یورپی یونین سے درخواست کی ہے اور انہیں کہا ہے کہ پہلے بھی انہوں نے ہمیں سپورٹ کیا آئندہ بھی کریں گے، ہمیں امید ہے کہ یورپی یونین پاکستان کی جی ایس پی اپلس کی ضرورت کو مدنظر رکھے گی اور ہمیں سپورٹ کرے گی‘۔
جنرل اکبر خان لکھتے ہیں اگر 1948ء میں ہم ایسا کوئی علاقہ یا مقام پر قبضہ کرلیتے جس میں بھارت کی دلچسپی ہوتی تو ہم رائے شماری کے لیے ان پر دباؤ ڈال سکتے تھے۔
شائع12 جون 202503:46pm
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر جنگ بندی کا اعلان 31 دسمبر 1948ء کی نصف شب ہوا اور پھر جنگ بندی کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک ایسی خون ریز کشیدگی کا آغاز ہوا جس سے سب سے زیادہ متاثر دونوں جانب کے کشمیری عوام ہی ہوئے۔
غیر منقسم برصغیر پاک و ہند میں جہاں ریاست جموں کشمیر میں 80 فیصد مسلمان آباد تھے وہیں آبادی اور جغرافیائی حد بندی کے اعتبار سے زیادہ حصہ سیز فائر کے نتیجے میں بھارتی تسلط میں چلا گیا جبکہ محدود وسائل سے قبائلی اور کشمیری مجاہدین نے بھاری جانی قربانیاں دے کر جو علاقہ آزاد کروایا، وہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر سے آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ایک تہائی یا اس سے زیادہ بھی کم ہے۔
جنرل اکبر خان کتاب ’پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت‘ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم جیتی ہوئی جنگ ہار گئے اور بھارت اپنی فوجی طاقت سے وہ تمام ہدف حاصل کر چکا تھا تو اسے مزید جنگ جاری رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جنگ بندی سے قبل ہم یہ ضرور چاہتے تھے کہ حساس علاقے دشمن کے ہاتھ جانے نہ پائیں اور بھارت کو اپنے وعدے پر قائم رکھنے کے لیے یا اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ ایسے علاقے ہمارے پاس رہیں جنہیں ہم ٹریپ کے طور پر استعمال کر سکیں جبکہ جنگ بندی کے نتیجے میں بھارت وہ سب کچھ حاصل کرچکا تھا جس کے لیے اس نے کشمیر جنگ کا آغاز کیا۔
جنرل اکبر خان لکھتے ہیں اب ہمارے پاس ایسا کوئی علاقہ یا مقام نہ تھا جس میں بھارت کی دلچسپی ہو اور وہ ہمارے قبضے میں ہوتا تاکہ اگر بھارت رائے شماری میں انکار کرے تو ہم اس جگہ یا علاقے کو دباؤ کے لیے استعمال کر سکیں۔ جنرل اکبر خان چاہے کتنے ہی متنازع کیوں نہ ہوں، پہلی تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔
بانی پاکستان قائداعظم اور جنرل اکبر خان کی ایک تصویر—ایکس
جنرل اکبر خان اپنی تصنیف میں بےچارگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’جب میں پنڈی واپس آیا تو میری ملاقات وزیراعظم لیاقت علی خان سے 3 ماہ بعد ہوئی۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ اس وقت مشورہ دینے کے لیے مجھ سے بڑے افسر موجود تھے (ان کا اشارہ جنرل ایوب خان کی طرف تھا) مگر میں یہ سوال اس اعتبار سے کررہا تھا کہ اول تو اس پوری جنگ میں، میں ابتدا ہی سے شریک رہا۔ دوم اس علاقے کی جغرافیائی صورت حال سے وزیر اعظم لیاقت علی خان ہی نہیں بلکہ اس وقت کی فوجی قیادت کو بھی بہتر مشورہ دے سکتا تھا‘۔
جنرل اکبر خان لکھتے ہیں ’3 ماہ بعد وزیر اعظم نے مجھے بلایا۔ ہماری یہ ملاقات 2 گھنٹے جاری رہی جس کے بعد بھی 6 ماہ کے عرصے میں جتنی بار بھی وزیر اعظم سے ملا میں نے محسوس کیا کہ میں ان سے بہت دور ہوتا جا رہا ہوں، میری اور ان کی سوچ کے درمیان بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے‘۔
گزشتہ کالم میں، میں نے تفصیل سے پنڈی سازش کیس کا ذکر کیا تھا۔ انگریز کے پروردہ جنرل ایوب خان اس بات سے آگاہ تھے کہ جب تک جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی افسران کو جو کشمیر میں لڑے تھے راستے سے نہیں ہٹایا جاتا تب تک وہ فوج اور ریاست پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکیں گے۔ مارچ 1951ء میں پنڈی سازش کیس اور اکتوبر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وطن عزیز میں جو کھیل کھیلا گیا وہ افسوس ناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔
لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ملک میں کئی وزیر اعظم تبدیل ہوئے—تصویر: ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز
1951ء سے اکتوبر 1958ء کے مارشل لا تک وطن عزیز میں 6 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ کوئی چند مہینوں کے لیے اور کوئی مشکل سے سال دو سال اپنی کرسی سنبھال سکے۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، وہ وزرائے اعظم ہیں جو تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہوچکے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے اس جملے نے ان دنوں بڑی شہرت پائی کہ ’میں اتنی شیروانی نہیں بدلتا جتنے عرصے میں پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہوجاتے ہیں‘۔
ادھر دلچسپ بات دیکھیے کہ تقسیم ہند سے پہلے تحریک آزادی کشمیر کے مقبول ترین رہنما شیخ عبداللہ جنہوں نے آزادی سے قبل بھی طویل اسیری جھیلی تھی اور جو تقسیم کے وقت بھی جیل میں تھے، دسمبر 1948ء میں جواہر لال نہرو کی سحر انگیز شخصیت کے حصار میں آکر نہ صرف رہا ہو جاتے ہیں بلکہ بھارتی زیرِتسلط کشمیر ان کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ میں جب مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں آتا ہے تو تاریخ کا المیہ دیکھیے کہ کشمیری رہنما شیخ عبداللہ اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندے کے طور پر شرکت کرتے ہیں۔ شیخ عبداللہ اپنی کتاب ’آتشِ چنار‘ میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ سمندر پار جانے کا پہلا موقع تھا‘۔
شیخ عبداللہ جو کشمیری سیاست کے ایک بڑے رہنما بلکہ کھلاڑی تھے اعتراف کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں وہ پاکستان کے مستقل مندوب سر ظفراللہ خان کے جال میں پھنس گئے تھے کیونکہ، ’یہ سر ظفراللہ کی چال کا نتیجہ تھا کہ مجھ سے اچانک پہلے تقریر کروا کر میری پوزیشن سلامتی کونسل میں گرا دی گئی‘۔
شیخ عبداللہ بتاتے ہیں کہ سرظفراللہ خان نے اقوامِ متحدہ میں میری ساکھ گرادی تھی—تصویر: ایکس
شیخ مزید لکھتے ہیں کہ ان کی گھنٹے بھر سے زائد کی تقریر کے دوران سر ظفراللہ مستقل مداخلت کرتے رہے۔ ظفراللہ خان نے ایک موقع پر جملہ کسا کہ ’میں جواہرلال نہرو کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہوں، میں نے جواب دیا کہ مجھے جواہر لال کی دوستی پر فخر ہے۔ جواہر لال کے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے اور خون خون ہے اور پانی پانی، اس حقیقت کے باوجود اگر کشمیر کے عوام اور جواہرلال کی دوستی میں کسی ایک چیز کا انتخاب کرنے کی نوبت آئی تو میں کشمیری عوام کے مفاد کو جواہر لال کی دوستی کی وجہ سے قربان نہیں کروں گا‘۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ مہاراجا کشمیر کے خلاف کشمیر کی آزادی کے لیے شیخ عبداللہ نے بے پناہ قربانیاں دیں مگر جب کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو کے ہاتھوں شیخ عبداللہ استعمال ہوچکے تو پھر یہ وزیر اعظم نہرو ہی تھے جنہوں نے نیشنل کانفرنس ہی کو تقسیم نہیں کیا بلکہ شیخ عبداللہ کو وزارت عظمیٰ سے نکال کر طویل اسیری میں ڈال دیا۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ کہ شیخ عبداللہ کشمیر کی دوسری اور تیسری نسل کی نظر میں ہمیشہ ایک ہیرو سے زیادہ ولن کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کا یہ ایک المناک خون ریز باب تھا جسے یہاں میں سمیٹتا ہوں کیونکہ اس کے بعد کے برسوں میں مسئلہ کشمیر کی گونج محض سلامتی کونسل کے ایوانوں میں ہی نہیں گونجتی رہی بلکہ بھارت کے زیرِتسلط کشمیر میں کشمیری عوام نے جو بے پناہ قربانیاں دیں۔ ایک لاکھ سے زائد شہادتیں ہوئیں اس سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور آج تک ان کی قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہم پہلی تحریک آزادی کشمیر کی جنگ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے—تصویر: فیس بک
میں یہاں 1965ء کی جنگ کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا جس کے نتیجے میں تاشقند معاہدہ ہوا، پھر 1971ء کی جنگ جس میں ملک تو دولخت ہوا اور پھر بقیہ پاکستان کے حکمران بننے والے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد شملہ معاہدہ بھی ہوا جبکہ کارگل کی جنگ تو محض اس وقت کے حکمرانوں کا ایک کھیل تھی۔
مگر یہ حقیقت ہے کہ جب ہم پہلی تحریک آزادی کشمیر کی جنگ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے سری نگر کی بتیاں دیکھنے کے قریب پہنچ چکے تھے اور پھر اقوام متحدہ میں بھی سر ظفراللہ خان کی سفارتی ذہانت سے رائے شماری کے دو ٹوک فیصلے کو اکثریت سے منوا چکے تھے تو بد قسمتی دیکھیں کہ 77 سال بعد آج بھی ہم وہیں اسی مقام پر کھڑے ہیں۔
کشمیر کا تنازع جب تک دونوں ممالک کے درمیان رہے گا تب تک پاکستان اور بھارت کے کروڑوں عوام کے سروں پر جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے جس کی جھلک ہم نے ایک مہینے پہلے ہی دیکھی ہے۔
بھارت کیساتھ مکمل جنگ کا خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا، وہاں دہشتگردی کو اعلان جنگ سمجھا جاتا ہے، پاکستان پر حملہ ہو تو ہمیں بھی اسے جنگ تصور کرنا پڑے گا، نیویارک پوسٹ کو انٹرویو
اپ ڈیٹ12 جون 202511:16am
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، سابق وزیر خارجہ اور پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے ساتھ مکمل جنگ کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔
نیویارک پوسٹ کو ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کا پانی بندکرنےکی کوشش کی تو جنگی اقدام تصور ہوگا، جنگ بندی تعاون میں کردار ادا کرنے پر امریکی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، قیام امن کے لیے امریکا کی ہر کوشش کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔
سابق وزیر خارجہ نے انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر بھارت میں کوئی دہشت گردی ہوتی ہے، تو اسے فوری طور پر جنگ کا اعلان سمجھا جاتا ہے، اسی اصول کے تحت اگر پاکستان پر ایسا حملہ ہو تو ہمیں بھی اسے جنگ تصور کرنا پڑے گا۔
بلاول بھٹو نے جنگ بندی تعاون میں کردار ادا کرنے پر امریکی قیادت کی تعریف کی اور قیامِ امن کے لیے مذاکرات کے لیے اور سفارت کاری پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ امریکا خطے میں امن کے قیام میں مؤثر کردار ادا کرتا رہےگا، پاکستان امن کی ہر کوشش میں بھرپور تعاون کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پیغام رسانی یہ رہی ہے کہ جنگ بندی ایک آغاز ہے، لیکن صرف ایک آغاز ، ہم امریکا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے امن کے قیام میں ہماری مدد کرے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ہم سب اس تنازع کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہو چکے ہیں، بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل فوجی تصادم کا امکان اب تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ ہو چکا ہے، امریکا کی ثالثی سے ہونے والی یہ جنگ بندی 10 مئی کو نافذ ہوئی، جو کئی ہفتوں کی لڑائی کے بعد ممکن ہو سکی۔
بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ 22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گرد حملے کی پشت پناہی کر رہا تھا، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے تھے، زیادہ تر ہلاک شدگان ہندو تھے، اور بھارتی وزیر خارجہ وکرم مِسری نے اس حملے کا الزام لشکر طیبہ پر عائد کیا تھا۔
پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں ملاقاتوں کے دوران بھارت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تعاون پر آمادگی ظاہر کی، تاہم انہوں نے اس حملے میں اسلام آباد کے ملوث ہونے کی تردید کی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے غیر جانب دار بین الاقوامی تحقیق کی پیشکش کی تھی، کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اس واقعے میں ملوث نہیں، بین الاقوامی انٹیلی جنس کمیونٹی بھی اسی مؤقف کی تائید کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ موجودہ حالات ہیں، اگر بھارت میں کہیں بھی کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب فوراً جنگ تصور کیا جاتا ہے، اور ردعمل کے اصول کے تحت اگر پاکستان پر کوئی حملہ ہوگا تو ہم بھی اسے جنگ سمجھیں گے۔
بلاول بھٹو نے بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی کو بھی ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا، اور واضح کیا کہ اسے پاکستان جنگی اقدام تصور کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں بھارت کے ساتھ نئے مذاکرات میں داخل ہونا ہے، اور باہمی معاہدوں کی نئی راہیں نکالنی ہیں، تو یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت پرانے معاہدوں، جیسے کہ سندھ طاس معاہدے، کی پاسداری کرے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے 8 مئی کی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی،جن دریاؤں پر بھارت کو منصوبے بنانے کا حق ہے (خواہ وہ مشرقی ہوں یا مغربی) پاکستان نے ہمیشہ ان پر اعتراض کیا، جس سے بھارت کے جائز پانیوں کے استعمال میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے 23 مئی کو ڈچ براڈکاسٹر این او ایس سے گفتگو میں کہاتھا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے مشکل رہے ہیں، انہوں نے مذہبی انتہا پسندی اور سرحد پار دہشت گردی کو ہمارے خلاف ایک دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اسلام آباد سے آنے والے وفد نے امریکی وزارت خارجہ اور کانگریس کے حکام سے ملاقات کی، اور اب برطانیہ و یورپ کے سفارت کاروں سے بھی امن کے مستقل حل کے لیے رابطہ کرے گا۔
بلاول نے کہا کہ ہم نے فوجی برتری کے باوجود جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، یہ شرط رکھ کر کہ یہ صرف پہلا قدم ہوگا۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ صدر امن کے لیے سنجیدہ ہیں اور وہ امریکا میں اس پیغام کو مؤثر طور پر آگے بڑھائیں گے، پاکستان یقیناً تیار ہے۔
بھارتی سفارت خانے نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دورہ برسلز کے دوران پارلیمانی وفد یورپی یونین اور بیلجیئم کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کرے گا جس میں بھارتی جارحیت اور حالیہ تنازع سے متعلق ’غلط معلومات پر مبنی بھارتی مہم‘ کا مؤثر جواب دے گا۔
شائع11 جون 202509:36pm
پاکستان کا اعلیٰ سطح پارلیمانی وفد سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی قیادت میں واشنگٹن نیویارک اور لندن کے کامیاب دوروں کے بعد یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز پہنچ گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مقرر کردہ اعلٰی سطح کے پارلیمانی وفد کے دورے کا مقصد، بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی پر پاکستان کا مؤقف پیش کرنا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اجاگر کرنا ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی سربراہی میں وفد کے دیگر اراکین میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک،سینیٹر شیری رحمٰن، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر خان، سینیٹر سید فیصل علی سبزواری شامل ہیں۔
برسلز پہنچنے پر یورپی یونین بیلجیئم اور لکسمبرگ کے لیے پاکستان کے سفیر رحیم حیات قریشی اور دیگر افسران نے وفد کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔
پارلیمانی وفد اپنے دورہ برسلز کے دوران یورپی یونین اور بیلجیئم کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کرے گا، ان ملاقاتوں میں بھارت کی جارحیت اور پاک بھارت تنازع سے متعلق ’غلط معلومات پر مبنی بھارتی مہم‘ کا مؤثر جواب دے گا۔
پارلیمانی وفد بھارت کے پاکستان مخالف عزائم اور جارحانہ اقدامات سے متعلق یورپی حکام کو آگاہ کرے گا۔
علاوہ ازیں، یورپی حکام کے ساتھ ساتھ پارلیمانی وفد کی برسلز میں یورپ کے معروف تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا نمائندوں سے ملاقاتیں بھی شیڈول کا حصہ ہیں۔
اس سے قبل، دورہ لندن کے اختتام پر وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر، پانی سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے، امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا۔
بھارت کو اپنے حالیہ جارحانہ اقدامات کو جواز دینے کیلئے گمراہ کن بیانیے گھڑنے سے باز رہنا چاہیے، پاکستان پرامن بقائے باہمی، مذاکرات اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، دفتر خارجہ
اپ ڈیٹ11 جون 202507:05pm
پاکستان نے برسلز میں دیے گئے بھارتی وزیر خارجہ کے غیر ذمہ دارانہ بیان کو یکسر مسترد کر دیا۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق اعلیٰ سفارت کاروں کی گفتگو کا مقصد اشتعال انگیز اور جارحانہ بیانات کے بجائے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہونا چاہیے جبکہ ایک وزیر خارجہ کے لب و لہجے کو اُن کے عہدے کے شایانِ شان ہونا چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت ایک بدنیتی پر مبنی مہم میں مصروف ہے، جس کے ذریعے وہ دنیا کو ایک من گھڑت مظلومیت کے بیانیے سے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم، پاکستان مخالف مسلسل ہرزہ سرائی سے بھارت اپنی سرحدوں سے باہر دہشت گردی کی سرپرستی کو نہ تو چھپا سکتا ہے اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی مظالم پر پردہ ڈال سکتا ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بھارت کو دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے خود احتسابی کرنی چاہیے اور دہشت گردی، تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا جائزہ لینا چاہیے جبکہ بھارت کو اپنے حالیہ جارحانہ اقدامات کو جواز دینے کے لیے گمراہ کن بیانیے گھڑنے سے بھی باز رہنا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی، مذاکرات اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، تاہم وہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی جارحیت کے خلاف اپنے عزم اور صلاحیت میں پُر عزم ہے جس کی واضح مثال گزشتہ ماہ بھارتی حملوں کے جواب میں پاکستان کا بھرپور ردعمل ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت سے آنے والا بیانیہ ناکام عسکری مہم کے بعد مایوسی کی غمازی کرتا ہے۔
بیان میں بھارتی قیادت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی زبان کا معیار بہتر بنائے اور پاکستان سے اپنی جنون کی حد تک بڑھی ہوئی توجہ ہٹائے، تاریخ اس بات کا فیصلہ نہیں کرے گی کہ کون سب سے زیادہ چیخا بلکہ اسے یاد رکھے گی جس نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے برسلر میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف اشتعال انگیزی کی تو بھارت پاکستان میں گہرائی میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا بیان قابل ستائش، کشمیر، پانی سمیت تمام مسائل بات چیت سے حل ہوسکتے ہیں، بھارت خارجہ پالیسی سے دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ختم کرے، لندن میں گفتگو
اپ ڈیٹ11 جون 202504:44pm
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، سابق وزیر خارجہ اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر، پانی سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں، بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے، امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بلال بھٹو زرداری نے کہا کہ پاک-بھارت جنگ کے بعد پاکستان نے آج تک سیز فائر کی پاسداری کی ہے، حملے کے جواز کے لیے بھارت کا پورا بیانیہ جھوت پر مبنی تھا، جنگ کے بعد بھی بھارت جھوٹ پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
برطانیہ کے دورے میں ارکان پارلیمنٹ اور تھنک ٹینکس کے اہم ارکان سے ملاقاتوں کے بعد برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے روانگی سے قبل لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے میڈیا میں بہت فرق ہے، گودی میڈیا نے جھوٹ پھیلانے کی پالیسی اپنائی، جب کہ پاکستان کے میڈیا نے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی جس پر میں میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب مؤثر انداز میں دیا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو جنگ کے دوران بہترین حکمت عملی بنانے پر فیلڈ مارشل کا اعزازی عہدہ دیا گیا، جو ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا، عالمی سطح کے معاہدے کی شرائط سے کوئی بھی ملک روگردانی نہیں کرسکتا، ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ فعال ہے اور اسے کسی طور پر معطل کرنے کا اختیار بھارت کو حاصل نہیں ہے۔
کینیڈا، امریکا اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ نے کہا کہ بھارت کہتا کچھ، اور کرتا کچھ اور ہے، جب بھارت پاکستان پر الزام لگا رہا تھا تو دنیا میں کوئی بھی ملک اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، سب جانتے ہیں کہ بھارت دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ دے کر دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے، سکھ رہنماؤں کے کینیڈا میں قتل پر کینیڈین وزیر اعظم کا بیان بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک بھی بھارتی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے، بلوچستان میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کی فنڈنگ ختم کرنی چاہیے تاکہ اس کے دہشت گردی کے خلاف بیانات کو سنجیدہ لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی پر مسلمانوں کے قتل، ٹارگٹ کرکے لوگوں کو مروانے کے الزامات ہیں، پاکستان کے ساتھ تنازع بڑھانے کے لیے جھوٹے بیانیے کے تحت الزامات لگا کر حملے کرنا بہادری نہیں، بلکہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے، پاکستان نے اس سے قبل بھی ابھی نندن کو گرفتار کرکے چائے پلاکر واپس بھیجا تھا، یہ پاکستان میں دراندازی کا ثبوت ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت خود جانتا ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہ ان کی انٹیلی جنس ناکامی تھی، جسے کور کرنے اور بہار میں الیکشن کے حوالے سے مارجن لینے کے لیے پاکستان پر الزامات لگائے گئے، تاہم پاکستان نے منہ توڑ جواب دے کر خطے میں بھارتی بالادستی کی سازش ناکام بنائی۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر اور بارہا یہ کہا ہے کہ خطے میں امن ہونا چاہیے، ہم تو صدر ٹرمپ کے بیانات کو وعدے سمجھتے ہیں، ان کے امن کی کوششوں کے لیے دیے گئے بیانات کو بھارت سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، ہم سمجھتے کہ اگر امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہے، تاکہ خطے کے ممالک قیام امن کے بعد ترقی کرسکیں اور آگے بڑھیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں بھارت نے کشمیر پر متنازع قانون پاس کرکے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیا، تاہم صدر ٹرمپ کے بیان سے مسئلہ کشمیر پھر سے زندہ ہوگیا، ٹرمپ کے بیان سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازع ہے، یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں، ہم نے برطانیہ میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی، جن کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات کرنا زیادہ کارآمد ہوگا اور آسانیاں ہوں گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکا کے محکمہ خارجہ کے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے جو کردار ادا کیا اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، ہم دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں اور امید ظاہر کرتے ہیں کہ ٹرمپ پوری کوشش کریں گے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے دیگر تمام دوستوں کی مدد سے مل کر حل کروائیں گے، اس حوالے سے بھارت کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایک سوال پر کہا کہ برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا پیغام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں جنگ چاہتے ہیں، جب کہ پاکستان کا پیغام ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں، جنگ جیسے خطرناک مرحلے سے نوجوانوں کو نہیں گزارنا چاہتے، بھارت کے بہت سے لوگ ہماری بات سنتے ہیں تو وہ بھی جنگ کی بات چھوڑ کر امن کی بات کرتے ہیں۔
وسائل کے مطابق دفاع کیلئے بجٹ مختص کیا، خرم دستگیر
ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وفد کے رکن خرم دستگیر نے کہا کہ بھارت کا دفاعی بجٹ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، ہم نے اپنے وسائل کے مطابق اپنے دفاع کے لیے بجٹ مختص کیا ہے، اس بجٹ کا پاکستان کے دفاع کے لیے بہترین انداز میں استعمال کیا جائے گا۔
خرم دستگیر نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ بھارت دہشت گردی کے لیے دوسرے ممالک کی سرزمین بھی استعمال کرتا ہے، ہم نے یہاں بھارت کے وزیراعظم اور اور وزرا کے جنگی جنون میں ڈوبے ہوئے بیانات بھی پیش کیے ہیں، تاہم پاکستان اپنے پانی کے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔
پاکستانی وفد کے رکن نے کہا کہ ہم نے برطانیہ کے رہنماؤں پر واضح کیا ہے کہ بھارت کے سندھ طاس معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جنگ کا خطرہ موجود رہے گا، تاہم ہم بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کا وعدہ ہے کہ جنگ کرنے کی صورت میں وہ تجارتی تعلقات نہیں رکھے گا، بھارت یاد رکھے کہ جنگ اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، جنگی بیانات سے بھارت کا جنون ان کی معیشت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
انہوں نے پاک - بھارت کشیدگی پر فنکاروں کی جانب سے خاموشی اختیار کیے جانے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی حالات میں ہر کسی کو بولنا چاہیے تھا۔
اپ ڈیٹ11 جون 202504:39pm
میک اپ آرٹسٹ و اداکارہ نادیہ حسین نے انکشاف کیا ہے کہ حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی اور جنگ کے بعد لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں پاکستانی گلوکاروں نے بھارتی گانے گائے اور عوام بھی بڑا محظوظ ہوئے۔
نادیہ حسین نے حال ہی میں ’ایف ایچ ایم‘ پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
پروگرام کے دوران انہوں نے پاک - بھارت کشیدگی پر فنکاروں کی جانب سے خاموشی اختیار کیے جانے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی حالات میں ہر کسی کو بولنا چاہیے تھا۔
ان کے مطابق عام طور پر فنکار سیاسی معاملات پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سیاسی معاملہ نہیں تھا، وہ سیاسی کشیدگی سے بڑھ کر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام پاکستانی فنکاروں کو ملک کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا اور کھل کر بات کرنی چاہیے تھی۔
ان کے مطابق ممکن ہے کہ بعض فنکاروں کو ان کی پی آر ٹیم یا کمپنی نے کسی بیان دینے سے روکا ہو لیکن یہ غلط حکمت عملی تھی۔
اسی معاملے پر مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور جنگ کے بعد وہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ریسٹورنٹ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئیں، جہاں بھارتی گانے گائے گئے اور مہمان بھی بڑے خوش ہوئے۔
نادیہ حسین کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں تازہ جنگ کے بعد تقریب میں پاکستانی گلوکاروں کی جانب سے بھارتی گانے گائے جانے پر انہیں برا لگا، انہوں نے تقریب منعقد کرنے والی ٹیم سے بھی شکوہ کیا۔
انہوں نے کسی گلوکار کا نام لیے بغیر بتایا کہ پاکستانی گلوکاروں نے تازہ جنگی صورتحال کے باوجود بھارتی گانے گائے، ان کی جانب سے شکایت کے باوجود تقریب میں بھارتی گانوں پر پرفارمنس ہوتی رہی۔
نادیہ حسین نے مزید انکشاف کیا کہ انہوں نے تقریب میں موجود نوجوان لڑکیوں کو بھی کہا کہ وہ بھارتی گانوں پر شکایت کریں لیکن لڑکیوں نے شکایت کرنے سے منع کردیا۔
ان کے مطابق تقریب میں شریک ہونے والی لڑکیاں اور نوجوان افراد بھارتی گانوں پر جھومتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ بھارتی گانے چلانے میں کوئی برائی نہیں، ہمارے اپنے گانے اچھے نہیں ہوتے۔
نادیہ حسین نے نوجوان نسل اور تقریب منعقد کرنے والے منتظمین سمیت گلوکاروں کے رویے پر اظہار مایوسی بھی کیا۔
ٹرمپ چاہتے ہیں پاک-بھارت اختلافات، نسل در نسل جنگ کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے، بلاول کی سربراہی میں وفد کی امریکی حکام سے ملاقات میں جنگ بندی کا اعادہ کیا گیا، ٹیمی بروس
اپ ڈیٹ11 جون 202511:33am
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے مسئلہ کشمیر کے حل کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کا مسئلہ حل کرلیں گے، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاک-بھارت اختلافات، نسل در نسل جنگ کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ترجمان ٹیمی بروس نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاک-بھارت کشیدگی کے بعد موجودہ صورتحال سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ بلاول بھٹو کی سربراہی میں پاکستانی سفارتی وفد نے اپنے دورے میں انڈر سیکریٹری ایلیس ہوکر سے ملاقات کی، پاکستانی وفد سے ملاقات میں جنگ بندی کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی وفد سے دہشت گردی کے خلاف تعاون، دوطرفہ تعلقات پر گفتگو ہوئی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کا مسئلہ حل کرلیں گے، ٹرمپ پاک-بھارت اختلافات، نسل در نسل جنگ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ شکر ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوچکی، یہ کتنا مشکل کام تھا سب جانتے ہیں، لیکن صدر ٹرمپ، سیکریٹری مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے یہ کر دکھایا، ہمیں ان سب کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں صدر کے ذہن یا اُن کے منصوبوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی، جو بات میں جانتی ہوں وہ یہ ہے کہ ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ جو بھی قدم اٹھاتے ہیں وہ طویل المدتی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے یہ حیران کن نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایسی کسی چیز کو سنبھالنا چاہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نہ صرف ایسے نظر آتے ہیں بلکہ حقیقتاً وہ واحد شخصیت رہے ہیں جو اُن لوگوں کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوئے، جن کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ بات چیت کریں گے۔
ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں اُن کے منصوبوں کی تفصیلات نہیں بتا سکتی، لیکن دنیا اُن کی فطرت سے واقف ہے، اگر آپ مزید جاننا چاہتے ہیں تو وائٹ ہاؤس سے رابطہ کریں، میرا خیال ہے کہ وہ اس بارے میں کافی کچھ کہنے کے قابل ہوں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے، پاکستان کئی بار واضح کرچکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیے بغیر خطے میں دیرپا امن ممکن نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے گو کہ مسئلہ کشمیر کا نام نہیں لیا، تاہم ان کا اشارہ ممکنہ طور پر مستقل بنیادوں پر نسل در نسل جنگ کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کی طرف تھا۔
پورے خطے کو یرغمال بنانے والا ملک دراصل بھارت ہے، مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا، آپ کہیں کہ ہمیں ثبوت دینا ضروری نہیں ،آپ ایک ایٹمی ملک پر حملہ نہیں کر سکتے، اسکائی نیوز کو انٹرویو
شائع10 جون 202501:42pm
پاکستان کے پارلیمانی وفد کی اہم رکن سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ یہ مؤقف ناقابل قبول ہے کہ بھارت میں جو کچھ بھی ہو، اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے، ایسے رویے کا انجام صرف جنگ ہو سکتا ہے، کوئی پُرامن حل نہیں نکل سکتا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ واشنگٹن، نیویارک، لندن اور اب برسلز کا دورہ حقائق اجاگر کرنے کے لیے کیا گیا، ہمارا پیغام امن کا ہے، مگر بغیر کسی کمزوری کے، جنوبی ایشیا میں تصادم نہیں، مذاکرات خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے غیر ضروری جنگ کا سامنا کیا، جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا، بلا اشتعال حملہ کیا گیا، آج تک پہلگام حملے کا کوئی ثبوت نہیں ملا،پاکستان پر بغیر ثبوت کے الزامات لگائے گئے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ جنگ کے دوران حقائق کو مسخ کیا گیا، بھارتی مین اسٹریم میڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دی، پاکستانی بندرگاہوں پر قبضہ اور نقشہ مٹایا گیا، بھارتی ایجنڈا قوم پرستی اور تعصب پر مبنی ہے، ہم نے پہلگام حملے کی مذمت کی، افسوس کا اظہار کیا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ہمارا مؤقف کمزوری نہیں، حقیقت پر مبنی ہے، بھارت آج تک پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے، اور کوئی اس سے سوال تک نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بدلتا ہوا ملک ہے، ہم بہت سنجیدگی سے اصلاحات کر رہے ہیں ، افغانستان کے ساتھ ہمارا بار بار بدلتا ہوا تعلق ایک مسلسل چیلنج بنا ہوا ہے، گزشتہ 24 مہینوں میں پاکستان میں نمایاں سیاسی اور سیکیورٹی تبدیلیاں آئی ہیں۔
پارلیمانی وفد کی اہم رکن نے کہا کہ پاکستان ماضی میں بھی تبدیلی کے کئی مراحل سے گزر چکا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں، انہوں نے کہا کہ پورے خطے کو یرغمال بنانے والا ملک دراصل بھارت ہے، مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا، آپ کہیں کہ ہمیں ثبوت دینا ضروری نہیں ،آپ ایک ایٹمی ملک پر حملہ نہیں کر سکتے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے واضح کیا کہ یہ مؤقف ناقابل قبول ہے کہ بھارت میں جو کچھ بھی ہو، اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے، انہوں نے متنبہ کیا کہ ایسے رویے کا انجام صرف جنگ ہو سکتا ہے، کوئی پُرامن حل نہیں نکل سکتا۔
برتری کے باوجود پاکستا نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی، لندن میں صحافیوں سے بات چیت
شائع09 جون 202509:30pm
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نےکہا ہے کہ جنگ میں برتری کے باوجود ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی۔
سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے سفارتی وفد کے اراکین کے ہمراہ لندن پہنچنے پر ان خیالات کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، وفد میں حنا ربانی کھر ، خرم دستگیر ، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری اور بشریٰ انجم بٹ بھی وفد کا حصہ ہیں، ان کے ساتھ سینئر سفیر جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ بھی ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں، پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ پر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور نئی دہلی کے غیر ثابت شدہ الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سفارتی مہم شروع کی تھی، اپنی عالمی رسائی کی مہم کے حصے کے طور پر، وفد نے امریکہ کا دورہ کیا ہے، اور اس وقت لندن میں ہے، اور پھر برسلز بھی جائے گی۔
بلاول بھٹو نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے جنگ کے دوران ہمیں برتری حاصل رہی، اس برتری کے باوجود، ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی۔
امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کے بعد کشمیر تنازعہ جلد حل ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر، بلاول نے امید ظاہر کی کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ یا ان کی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے گی’ کیونکہ تنازعہ کے دوران پاکستان کی دفاعی پوزیشن بھارت سے بہتر تھی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر، چاہے وہ امریکا ہو یا برطانیہ، وہ سب اپنا کردار ادا کریں گے اور بھارت کو بات چیت کے ذریعے ہمارے مسائل حل کرنے پر راضی کریں گے۔
سابق وزیر خارجہ نے زور دیا کہ پاکستان نے 6 بھارتی جیٹ طیارے مار گرا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور اب امن قائم کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ وہ چھ طیارے وہی تھے جنہوں نے اپنا پے لوڈ گرایا تھا، جس کے نتیجے میں شہریوں کی شہادتیں ہوئی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پورے تنازعہ کے دوران پاکستان کو ایک معقول اور ذمہ دار ریاست کے طور پر دیکھا گیا۔
دریں اثنا، بلاول کی قیادت میں وفد، جو ایک روز قبل لندن پہنچا تھا، نے آج چیتھم ہاؤس میں برطانوی تھنک ٹینک، تعلیمی اور پالیسی ساز کمیونٹی کے ممتاز اراکین کے ساتھ بھی ملاقات کی۔
لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت کے دوران وفد نے حالیہ کشیدگی پر پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا، جبکہ ’ بھارت کی بلااشتعال فوجی جارحیت پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی شہادتیں ہوئیں اور علاقائی استحکام کو نمایاں خطرہ لاحق ہوا۔’
Pakistan’s Parliamentary Delegation interacts with Chatham House
A high-level Pakistani parliamentary delegation, led by former Foreign Minister and Chairman Pakistan’s People Party Mr. Bilawal Bhutto Zardari @BBhuttoZardari, engaged with eminent members of the British think… pic.twitter.com/SD8jqXGrtr
— Pakistan High Commission London (@PakistaninUK) June 9, 2025
وفد نے زور دیا کہ بھارت کے اقدامات پاکستان کی خودمختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
وفد نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کشمیر تنازعہ کا زیر التوا حل’ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ’ بنا ہوا ہے اور بامعنی مذاکرات اور بین الاقوامی وعدوں کے احترام کی حمایت کے لیے عالمی اقدام کی اپیل کو دہرایا۔
بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے، بلاول نے خبردار کیا کہ پانی کو ہتھیار بنانا بین الاقوامی اصولوں کو کمزور کرتا ہے اور ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔
بیان کے مطابق، انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ تشویشناک صورتحال کا نوٹس لے اور بھارت کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرائے۔
وفد نے زور دے کر کہا کہ بھارت کو پاکستان کا جواب ملک کے اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے اور خطے میں بھارت کے کسی بھی نئے نام نہاد ’معمول‘ کو قائم کرنے کے عزائم کو ناکام بنانے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
وفد کے علاوہ، برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر، ڈاکٹر محمد فیصل، بھی گول میز کانفرنس کے دوران موجود تھے۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے ایکس پر بتایا کہ وفد نے برطانیہ کے مشرق وسطیٰ کے وزیر حامش فالکنر اور ان کی ٹیم سے وزارت خارجہ، دولت مشترکہ اور ترقیاتی دفتر (ایف سی ڈی او) میں بھی ملاقات کی۔
ڈاکٹر محمد فیصل کی ایک پوسٹ کے مطابق، بلاول نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے اراکین کے ساتھ ایک بحث میں بھی شرکت کی، جس میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اس کے ایسوسی ایٹ فیلو ڈیسمنڈ بوون بھی موجود تھے۔
ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں، وفد برطانوی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرنے والا ہے، جس میں پاکستان اور کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپس بھی شامل ہیں۔
بھارت نے ایٹمی طاقت سے جنگ کرلی لیکن تاحال پہلگام حملے میں ملوث ایک بھی دہشت کا ثبوت نہیں دے سکا، اسکائی نیوز کو انٹرویو
اپ ڈیٹ09 جون 202509:05pm
سابق وزیرخارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ پاکستان پڑوسی ملک کے ساتھ مسائل کے حل کیلیے ڈائیلاگ اور سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے، بھارت، پاکستان کے 24 چوبیس کروڑ عوام کا پانی بند کرنے کی دھمکی دے کر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز کو انٹرویو میں حکومتی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیز فائر ہوگیا لیکن امن ابھی بھی نہیں ہوا، اگر بھارت یا مقبوضہ کشمیرمیں کوئی دہشتگردانہ حملہ ہوتا ہے تو چاہے ثبوت ہوں یا نہیں، وہ واقعہ جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ پاکستان ڈائیلاگ اور سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے تاکہ تمام مسائل پر بات چیت ممکن ہوسکے، بھارت پانی کو بطور ہتھیاراستعمال کرتے ہوئے 24 کروڑ پاکستانی عوام کو دھمکی دے رہا ہے، پڑوسی ملک کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
سابق وزیرِخارجہ نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی، اور ایف اے ٹی ایف کے تحت تمام گروپوں کیخلاف بھرپورکارروائیاں کیں، پتہ نہیں کیوں بھارت سچ تسلیم نہیں کررہا اورجھوٹی خبریں پھیلا کر اپنے ہی عوام کو گمراہ کررہا ہے، بھارت نے ایک ایٹمی طاقت سے جنگ کرلی لیکن پہلگام حملے میں ملوث ایک بھی دہشتگرد کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے یہ دھمکی دے کر پانی کو ہتھیار بنایا ہے کہ وہ پاکستان میں 24 کروڑ لوگوں کو پانی کی فراہمی بند کر دے گا، یہ دھمکی دینا اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، اگر وہ اس دھمکی پر عمل کرتا ہے ، تو پاکستان نے بہت واضح کر دیا ہے کہ ہم اسے جنگ کا عمل سمجھیں گے، ہر کسی کو یک زبان ہوکر بھارت کے اس فیصلے کی مذمت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اور سفارت کاری کی ضرورت ہے جہاں ہم تمام مسائل، دہشت گردی، کشمیر، یا پانی پر بات کریں اور آگے بڑھنا شروع کریں۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی سے نمٹ رہا ہے اور پاکستان نے دہشت گردو گروہوں کے خلاف ایف اے ٹی ایف فریم ورک کے تحت موثر کارروائی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، سب سے پہلے، بھارت میں جو دہشت گردانہ حملہ ہوا اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ دو مختلف چیزیں ہیں، پاکستان کے اندر جو دہشت گرد گروہ ہیں، پاکستان ان کے خلاف اپنی صلاحیت کے مطابق کارروائی کر رہا ہے، دہشت گرد حملہ جو بھارت میں ہوا اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ بھارت کے اندر کا ایک مقامی گروہ تھا،یہ حقیقت کہ بھارت ان گروہوں کے اقدامات کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا چاہتا ہے جو اس کے اپنے علاقے میں ہیں۔
جنگ بندی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لیے کریڈٹ کے مستحق ہیں، امریکا، صدر ٹرمپ، سیکرٹری روبیو پاکستان اور بھارت دونوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے سرگرم تھے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کی بالکل حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، بھارت ثالثی سے بھی انکار کرتا ہے چاہے ثالث امریکا ہو یا برطانیہ۔
عمران خان کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نےکہا کہ پاکستان میں ایک قانونی نظام ہے اور اگر ان کی عدالتوں سے رہائی ہوتی ہے تو اُس کی حمایت کریں گے۔
مسلمان برصغیر میں تاریخی، مذہبی اور ثقافتی جڑیں رکھتے ہیں، بھارت میں اقلیتوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے، صدر مملکت
شائع09 جون 202512:13pm
صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے، ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں اور ورکرز سے ملاقات کی۔
عید کی مبارکباد دیتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ ہمارے ورکرز ہماری قوت ہیں، مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک اور دھرتی سے وفا کرنی ہے، ملکی ترقی کے لیے كام کرنا ہے، معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں ترقی کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، زراعت ہماری معیشت کی بنیاد ہے، ملک کو زرعی شعبے کی بنیاد پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔
آصف علی زرداری نے بھارت کی بڑھتی شدت پسندی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے، ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، مسلمان برصغیر میں تاریخی، مذہبی اور ثقافتی جڑیں رکھتے ہیں۔
بھارت سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار ہے، بھارت جنگ بھی ہارا اور مار بھی کھائی، دنیا نے بھارتی پروپیگنڈے کو پوری طرح پرکھا اور ان کا جھوٹ دنیا کے سامنے آیا، وفاقی وزیر اطلاعات
شائع08 جون 202507:20pm
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ دنیا نے دیکھا پاکستان کا بیانیہ سچ پر مبنی تھا جب کہ نریندر مودی آج سرینڈر مودی بن چکا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات نے پی پی 163 لاہور کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پارٹی رہنماؤں سے عید ملی اور مبارکباد دی، رکن اسمبلی بی بی وڈیری اور رکن اسمبلی میاں عمران جاوید نے عطااللہ تارڑ کا استقبال کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی میں اللہ نے سرخرو کیا، پاکستانی شاہینوں نے بھارت کو دن کی روشنی میں چت کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بہترین حکمت عملی تھی جس میں اللہ نےکامیابی دی۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، ایران، ترکیہ، آزر بائیجان اور تاجکستان کے دورے کامیاب رہے جب کہ دنیا نے دیکھا ہمارا بیانیہ سچ پر مبنی تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار ہے، بھارت جنگ بھی ہارا اور مار بھی کھائی، نریندر مودی آج سرینڈر مودی بن چکا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دنیا نے بھارتی پروپیگنڈے کو پوری طرح پرکھا اور ان کا جھوٹ دنیا کے سامنے آیا جب کہ عسکری لحاظ سے تو پاکستان کی شناخت واضح ہوگئی اب معاشی طاقت بننا ہے۔
شہباز شریف نے پاک-بھارت کشیدگی کے دوران پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل حمایت پر رجب طیب اردوان کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا۔
اپ ڈیٹ08 جون 202506:26pm
وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے ترکی کے برادر عوام کو عید کی مبارکباد دی۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور عید الاضحی کے پرمسرت موقع پر ان کو اور ترکی کے برادر عوام کو عید کی مبارکباد اور نیک تمنائیں پیش کیں۔
وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ استنبول اور لاچین کے دوران ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے، پاک-بھارت بحران کے دوران ترکیہ کی جانب سے پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل حمایت پر صدر اردوان کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے اور پاک ترک بھائی چارے کی تاریخ میں ایک اور شاندار باب کا اضافہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے دوران کیے گئے اہم فیصلوں پر تیزی سے عملدرآمد پر بھی اتفاق کیا، اس سے دوطرفہ تعاون بالخصوص تجارت اور سرمایہ کاری میں تیزی لانے میں مدد ملے گی۔
دونوں رہنماؤں نے بنیادی مفادات پر ایک دوسرے کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا جب کہ انہوں نے غزہ کی صورتحال سمیت تازہ ترین علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ترکیہ کے صدر نے عید الاضحیٰ کے موقع پر نیک خواہشات کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا اور پاکستانی عوام کے لیے بھی خیر خواہی کے جذبات کا اظہار کیا۔
انہوں نے تمام اہم معاملات میں پاکستان کے لئے ترکیہ کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان نے کابینہ سے خطاب میں پاکستانی قوم کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
رجب طیب اردوان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی پر خوشی ہے جب کہ پانی سمیت تمام مسائل کے آسان حل کے خواہاں ہیں۔
اس سے قبل، وزیراعظم شہباز شریف نے سلطنت عمان کے سلطان ہیثم بن طارق سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے انہیں عید الاضحیٰ کی مبارک باد دی تھی۔
وزیراعظم نے پاکستان اور بھارت کشیدگی کے دوران عمان کے موقف پر شکریہ ادا کیا، وزیراعظم شہباز شریف نے کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کے لیے سلطان عمان کی حمایت کو سراہا۔
پاکستان امن کا خواہاں ہے، بھارت سے کشیدگی کے خاتمے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا، سربراہ پارلیمانی وفد کی واشنگٹن میں نیوز کانفرنس
اپ ڈیٹ07 جون 202508:28pm
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور سربراہ پارلیمانی وفد بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کا پانی روکنے کا اقدام جارحیت ہے۔
واشنگٹن میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، بھارت سے کشیدگی کے خاتمے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے جو بھی تحفظات ہیں، وہ ہمارے ساتھ شیئر کرے تاکہ ہم انہیں حل کرسکیں، اسی طرح ہمارے پاس بھی مسائل کی ایک فہرست ہے، جو ہم چاہتے ہیں کہ بھارت حل کرے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اسی طرح بھارت کے ساتھ مذاکرات میں بنیادی تنازع مسئلہ کشمیر کا ہے، جسے حل ہونا چاہیے اور کشمیر میں دہشت گردی کی حقیقی وجہ بھی یہی ہے، بھارت جتنا اس مسئلے کو نظرانداز کرتا رہے گا، اور اپنی ظلم کی پالیسی جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا ردعمل بدقسمتی سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے چارہ بن جائے گا، جو مستقبل میں اس طرح کے حملے کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسائل کی جڑ حل کریں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ اسی طرح آپ باخبر ہوں گے اور ہمارے ساتھ مل کر مذمت کریں گے کہ بھارت نے 24 کروڑ عوام کو پرانی کی فراہمی معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے بھارت کے ساتھ نئے مذاکرات ہوتے ہیں تو اگر ہم نئے معاہدات کریں گے، جبکہ نہایت ضروری یہ ہے کہ پرانے معاہدوں پر عمل درآمد کریں تاکہ ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد ہو۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں بھارت دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے، بھارتی نیول افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتارکیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کا پانی روکنے کا اقدام جارحیت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس تنازع میں پاکستان کی حمایت میں ایک چیز جاتی ہے کہ ہم نے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ٹرانسپیرنٹ رہے، ہم میڈیا، اپنے لوگوں کے ساتھ شفاف رہے، اسی طرح ہم اپنے اتحادوں کے ساتھ بھی ٹرانسپیرنٹ رہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس صورتحال میں پاکستان، بھارت اور امریکا نے دعوے کیے، 2 ایک بات کر رہے تھے جبکہ ایک فریق کوئی اور بات کہہ رہا تھا۔
سربراہ پارلیمانی وفد کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے نہ صرف تنازع کے دوران ڈس انفارمیشن پھیلائی، بلکہ وہ اب بھی اپنے سفارتی وفد کے ذریعے یہ جاری رکھے ہوئے ہے، انہوں نے پہلگام میں دہشتگردی کے حملے پر اپنے عوام اور عالمی برادری کے ساتھ جھوٹ بولا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت نے اب تک نہیں بتایا کہ دہشتگرد کون تھے؟ وہ اب تک اس بات کا اعتراف نہیں کررہے کہ اس تنازع میں انہوں نے کتنے طیاروں کو کھویا۔
پاک فوج کے جرات مندانہ موثر جواب سے پاکستانی شہریوں کی جانوں کے ضیاع کا مناسب بدلہ لیا، آرمی چیف نے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوس میں مثالی کارکردگی کو بھی سراہا، آئی ایس پی آر
اپ ڈیٹ07 جون 202509:02pm
عیدالاضحیٰ کے موقع پر آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر اگلے مورچوں کا دورہ کیا اور عید جوانوں کے ساتھ منائی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر نے عیدالاضحی اگلے مورچوں پر تعینات جوانوں کے ساتھ منائی، ایل او سی پہنچنے پر کمانڈر راولپنڈی کور نے فیلڈ مارشل کا استقبال کیا۔
آرمی چیف نے عیدالاضحیٰ کی نماز بھی جوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر ادا کی، نماز عید کے بعد وطن کی ترقی و استحکام ،شہدا کے ثواب کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر نے افسران اور جوانوں کو عید کی مبارکباد دی اور جوانوں کے عزم و حوصلے اور پیشہ ورانہ مہارتوں کو سراہا اور بلند حوصلے، غیرمعمولی آپریشنل تیاریوں کی تعریف کی۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل نے افسروں اور جوانوں سے خطاب میں کہا کہ مورچوں پر اہلخانہ کے بغیر عید سب سے بڑا قومی فریضہ ہے، عید پر گھر والوں سے دور رہنا مادر دفاع وطن کے اعلیٰ قومی مقصد کو پورا کرتا ہے۔
آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کے جرات مندانہ موثر جواب سے پاکستانی شہریوں کی جانوں کے ضیاع کا مناسب بدلہ لیا۔
آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل نے مسلح افواج کی جنگی تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اعادہ کیا اور شہدا، غازیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق فیلڈ مارشل نے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوس میں مثالی کارکردگی کو بھی سراہا جب کہ آرمی چیف کے دورے کا مقصد فرنٹ لائن دستوں کے ساتھ عید منانا تھا۔
وزیراعظم نے پاک بھارت کشیدگی پر ملائیشیا اور تاجکستان کے متوازن، اصولی مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجی کارروائیوں پر بروقت اور فیصلہ کن اقدام ناگزیر تھا۔
اپ ڈیٹ07 جون 202511:21pm
عیدالاضحی پر وزیراعظم شہباز شریف کے تاجکستان کے صدر امام علی، ملائیشیا کے ہم منصب داتو سری انور ابراہیم، امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ٹیلیفونک رابطے ہوئے، اس دوران رہنماؤں نے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دی۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے تاجکستان کے صدر امام علی سے ٹیلی فونک رابطہ میں دورہ دوشنبے میں مہمان نوازی پر تاجک صدر اور حکومت سے اظہار تشکر کیا۔
شہباز شریف نے گلیئشرز کے تحفظ سے متعلق عالمی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی جب کہ پاک بھارت کشیدگی میں تاجکستان کے متوازن موقف کو سراہا۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینےکی کوشش کی، امریکا اور دوست ممالک کی ثالثی سے بھارت کے خلاف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔
وزیراعظم نے تاجک صدر کو جلد پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دہرائی۔
دوسری جانب، وزیراعظم اور ان کے ملائیشیا کے ہم منصب داتو سری انور ابراہم کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد دی۔
رہنماؤں نے مسلم امہ کے اتحاد، خوشحالی اور مظلوم فلسطینیوں کے لیے امن و سلامتی کی دعا کی جب کہ شہباز شریف نے پاکستان بھارت کشیدگی پر ملائیشیا کے متوازن اور اصولی مؤقف کو سراہا۔
وزیراعظم نے ملائیشین ہم منصب کو بتایا کہ پاکستان خطے میں امن واستحکام کا خواہاں ہے، بھارت کی اشتعال فوجی کارروائیوں کے جواب میں بروقت اور فیصلہ کن اقدام ناگزیر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وزیراعظم نے رواں سال کے آخر میں ملائیشیا کے دورے کی خواہش کا اظہار کیا۔
شہباز شریف کا امیر قطر سے رابطہ
دریں اثنا، وزیراعظم شہباز شریف نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور عید الاضحیٰ کے موقع پر قطر کے امیر اور قطر کی عوام کو پرتپاک مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی حالیہ کشیدگی کو کم کرنے میں قطر کی متحرک سفارت کاری اور تعمیری کردار پر عزت مآب امیر قطر سے اظہار تشکر کیا۔
انہوں نے بحران کے عروج پر ٹیلی فون پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے کردار کو بھی سراہا۔
اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے خصوصا باہمی طور پر فائدہ مند تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کی اپنی مشترکہ خواہش کا اعادہ بھی کیا۔
مزید بتایا گیا کہ امیر قطر نے وزیر اعظم کی عید کی مبارکباد کا گرمجوشی سے جواب دیا اور پاکستانی عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، دونوں رہنماؤں نے رابطے میں رہنے اور جلد از جلد ایک دوسرے سے ملنے پر اتفاق بھی کیا۔
شہباز شریف کا آذربائیجان کے صدر سے بھی رابطہ
شہباز شریف نے عید الاضحیٰ کے پرمسرت موقع پر آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔
پرائم منسٹر آفس میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیراعظم نے صدر الہام علیوف، ان کے اہل خانہ اور آذربائیجان کے برادر عوام کو عید کی مبارکباد دی۔
وزیر اعظم نے لاچن کے حالیہ دورے کے دوران گرمجوش استقبال پر صدر الہام علیوف سے اظہار تشکر کیا، اپنے دورہ کے دوران وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آذربائیجان کے یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کی تھی اور پاکستان-آذربائیجان-ترکی سہ فریقی سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔
شہباز شریف نے حالیہ پاک بھارت بحران کے دوران آذربائیجان کی جانب سے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت پر ایک مرتبہ پھر صدر الہام علیوف سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط بھائی چارے کا ثبوت ملتا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان-آذربائیجان دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے اپنے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ ہم آئندہ ملاقاتوں کے منتظر ہیں۔
وزیراعظم کی مصری صدر سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پرگفتگو
وزیراعظم شہباز شریف نےمصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کیا اور انہیں عیدالاضحیٰ کی مبارکباد دی۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے مصر کی قیادت، حکومت اور عوام کو عید کی مبارکباد دی، وزیر ا عظم نے حالیہ پاک بھارت بحران کے دوران مصر کے تعمیری کردار اور امن کی کوششوں کو سراہا۔
—فوٹو: اے پی پی
وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈی ایٹ سربراہی اجلاس کے لیے گزشتہ سال دسمبر میں اپنے دورہ قاہرہ کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں مصر کے ساتھ اپنے موجودہ دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط اور وسعت دینے کی پاکستان کی خواہش کا اعادہ کیا۔
شہباز شریف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان مصر کے ساتھ کئی شعبوں بشمول تجارت ، سرمایہ کاری اور صحت میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کا خواہاں ہے ۔
مصرکے صدر نے وزیراعظم کی عید الاضحیٰ کی مبارکباد کا گرمجوشی سے جواب دیا اور اس پرمسرت موقع پر پاکستانی عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
انہوں نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور جنوبی ایشیا میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
شہباز شریف کا ایرانی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ
وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان سے عید الاضحیٰ کے موقع پر ٹیلیفونک رابطہ کیا اور عید کی مبارکباد دی۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے عید کی خوشی کے اس موقع پر ایرانی صدر کے ساتھ ساتھ ایران کے برادر عوام کو بھی عید کی مبارکباد دی۔
انہوں نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے لیے اپنے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا، تہران کے اپنے حالیہ دورہ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے باہمی دلچسپی کے شعبوں میں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی پاکستان کی خواہش کا اعادہ کیا۔
اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا، جس میں حالیہ پاک بھارت بحران کے ساتھ ساتھ غزہ کی تشویشناک صورتحال بھی شامل ہے۔
اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر پزشکیان کو پاکستان کے سرکاری دورہ کی دعوت دی۔