ایران پر اسرائیلی حملے سے متعلق اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
اسرائیل نے 13 جون کو 200 جنگی جہازوں کی مدد سے ایران میں 100 سے زائد مقامات پر حملہ کرتے ہوئے ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔
ان حملوں میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوئے۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں ایران کے جوہری اور عسکری مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب ایرانی میڈیا کے مطابق حملوں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 5 شہری شہید اور 50 زخمی ہوئے۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیوں کیا اور حملے کے لیے یہی وقت کیوں چُنا؟ آئیے اس پر تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں:
اسرائیل کا حملہ کب اور کتنے بجے ہوا؟
ایران کے دارالحکومت تہران میں مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 3 بجے کے قریب دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق اسرائیل نے تہران کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، جب کہ دارالحکومت کے شمال مشرقی علاقوں میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
اسی دوران اسرائیل میں بھی شہریوں کو فضائی حملے کے سائرن کے ذریعے خبردار کیا گیا اور انہیں ہنگامی فون الرٹس موصول ہوئے۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کے مختلف علاقوں میں درجنوں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں جوہری تنصیبات بھی شامل ہیں۔
چند گھنٹوں بعد ایرانی سرکاری میڈیا نے اطلاع دی کہ تہران سے 225 کلومیٹر جنوب میں واقع نطنز کی جوہری تنصیب پر بھی دھماکہ ہوا۔
عالمی جوہری نگران ادارے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے تصدیق کی کہ نطنز کی تنصیب حملے کا نشانہ بنی، تاہم ایرانی حکام نے بتایا کہ وہاں تابکاری کی سطح میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ جوہری تنصیبات پر حملے نہ صرف جوہری سلامتی اور تحفظ کے لیے خطرناک ہیں بلکہ ان کے علاقائی اور عالمی امن پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے تمام فریقین سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔
حملے کی اصل وجہ کیا تھی؟
حملے کی پہلی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام دراصل ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش ہے، جو خطے اور خصوصاً اسرائیل کے وجود کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
اگرچہ ایران بارہا یہ وضاحت دے چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن عالمی جوہری ادارہ (آئی اے ای اے) اور مغربی ممالک اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں۔
دوسری وجہ سفارتی تناؤ ہے، امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی پر مذاکرات جاری تھے، جن میں پیش رفت کے امکانات تھے۔
اسرائیل ان مذاکرات کا سخت مخالف ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے ایران کو جوہری سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا موقع ملے گا۔
ایران کا جوہری پروگرام کیا ہے؟
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے ’ایران کے جوہری پروگرام کے دل‘ کو نشانہ بنایا، لیکن ایران کا یہ پروگرام درحقیقت ہے کیا؟
ایران طویل عرصے سے دعویٰ کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ملک بھر میں اس کی کئی جوہری تنصیبات موجود ہیں، جن میں سے کچھ حملے کا نشانہ بنی ہیں۔
تاہم عالمی طاقتوں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو شک ہے کہ ایران کا پروگرام محض سویلین مقاصد تک محدود نہیں ہے۔
حال ہی میں آئی اے ای اے نے امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں کہا گیا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کر رہا۔
گزشتہ ہفتے جاری کی گئی آئی اے ای اے رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس 60 فیصد تک خالص یورینیم موجود ہے، جو ممکنہ طور پر نو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے، تاہم ایران نے اس رپورٹ کو ’سیاسی‘ قرار دے کر مسترد کیا۔
حملے کے لیے یہی وقت کیوں چُنا گیا؟
اکتوبر میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے حملے کے بعد ایران کا فضائی دفاعی نظام بری طرح متاثر ہو چکا تھا، اسرائیل نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا جب ایران مکمل طور پر تیار نہیں تھا۔
اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے میں کوئی پیش رفت ہوئی تو ایران کو عالمی سطح پر دوبارہ طاقت ملے گی، اسی لیے حملہ ایسے وقت کیا گیا جب ایک نیا مذاکراتی دور شروع ہونے والا تھا۔
رات کے آخری پہر صبح ساڑھے 3 بجے حملہ اس لیے کیا گیا تاکہ ردعمل کمزور ہو اور جوہری تنصیبات کو زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔