لو گُرو: وہ فلم جس میں کئی بھارتی فلموں کی جھلک نظر آئی

پاکستانی سنیما کو ضرورت ہے کہ ہم اس کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اس کے ساتھ کھڑے ہوں، لہذا تمام فلم بینوں سے درخواست ہے کہ وہ یہ فلم دیکھنے ضرور جائیں۔
شائع June 9, 2025

پاکستان میں عید کے تہوار کا ثقافتی طور پر فلموں کی ریلیز سے بھی ایک گہرا تعلق بن چکا ہے۔ عید کے موقع پر نئی فلمیں پاکستانی فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصے تک یہ تہوار پاکستانی فلموں کے لیے مقابلے کی دوڑ کا موقع ہوتے تھے اور ہر پاکستانی فلم ساز اپنی فلم کو اس موقع پر ریلیز کرنا چاہتا تھا مگر اب صورت حال مختلف ہے۔

کچھ عرصے سے پاکستانی فلمی صنعت کی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی فلم اس موقع پر ریلیز ہوتی ہے۔ اس بار دو پاکستانی فلمیں، رافع راشدی کی ’دیمک‘ اور ندیم بیگ کی ’لوگُرو‘ سنیما کی زینت بنی ہیں۔ یہاں دوسری فلم ’لوگُرو‘ کا تفصیلی تبصرہ پیش خدمت ہے۔

مرکزی خیال/کہانی/اسکرپٹ

اس فلم کے اسکرپٹ نویس واسع چوہدری ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی مزاحیہ رومانوی فلمیں لکھ چکے ہیں۔ وہ ایک فارمولا کہانی لکھنے کے ماہر ہیں اور اس فلم کی کہانی میں انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ہی فلم میں کئی فلموں کی یاد تازہ کرسکتے ہیں۔

اس نوعیت کی فلمیں چونکہ خالص کمرشل اور تجارتی بنیادوں پر بنائی جاتی ہیں، اس لیے ہم ان سے بہت زیادہ تخلیقی گہرائی اور ہنرمندی کی توقع بھی نہیں کرسکتے لیکن کمرشل فلم کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ آپ ٹھنڈی جگتیں جو آپ اپنے لیٹ نائٹ شو میں لگاتے ہیں، وہی فلم کے اسکرپٹ کا حصہ بنادیں۔

کم از کم اس کہانی یا پلاٹ پر ہی کام کرنا تھا تو کہانی بیان کرنے اور لطیفے سنانے میں احسن رحیم کی فلم ’طیفا ان ٹربل‘ کو بطور مثال دیکھ لیتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فلم کے مرکزی خیال کو ہی اس فلم میں استعمال کیا گیا ہے۔

  لکھاری واسع چوہدری نے اس فلم میں کئی فلموں کی یادیں تازہ کیں
لکھاری واسع چوہدری نے اس فلم میں کئی فلموں کی یادیں تازہ کیں

بہرحال اس مذکورہ فلم ’لو گرو‘ میں آپ کئی پاکستانی اور بھارتی فلموں کی جھلکیاں دیکھ سکیں گے۔ اگر آپ کہانی کے لیے زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں اور صرف ایک پرانی کہانی کو ہلکے پھلکے انداز میں نئے لینڈ اسکیپ کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس فلم کو دیکھتے ہوئے آپ کو زیادہ کوفت محسوس نہیں ہوگی۔ فلم میں مزاح کے نام پر پختون لب ولہجے کو استعمال کرنے کی پرانی کوشش بھی یہ بتاتی ہے کہ اب پاکستانی کہانی نویسوں کے پاس کمرشل سنیما کے نام پر بھی بتانے کو کچھ نہیں ہے۔

پاکستان میں فلمی صنعت کی ناکامی کی ایک اہم وجہ اچھے اسکرپٹ نہ ہونا ہیں۔ یہ لوگ خود کو کمرشل اور انٹرٹینمنٹ فلموں کے نام پر ہلکی پھلکی فلموں کی اصطلاحوں میں خود کو چھپانا چاہتے ہیں، آخرکب تک یہ بہانے بازی بھی کام آئے گی۔

فلم سازی/ہدایت کاری

اس فلم کی سب سے شاندار بات اس کا پروڈکشن ڈیزائن ہے یعنی پوری فلم کی پریزنٹیشن بہت عمدہ ہے۔ فلم کی لوکیشنز پاکستان اور برطانیہ میں جو دکھائی گئی ہیں اور جس طرح انہیں عکس بند کیا گیا ہے، وہ بہترین ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار ندیم بیگ اس طرز کی عکس بندی کے ماہر ہیں، اس لیے اب بھی انہوں نے یہ کام اپنی پوری مہارت سے انجام دیا ہے۔

اس بار سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ فلم ایک فلم کے انداز سے بنائی گئی ہے، اس میں ڈرامے کی طرح فریمز نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فلم کے مختلف حصوں میں مختلف بھارتی فلموں کے پورے پورے فریم کاپی بھی کیے ہوئے ہیں جیسے کہ ابتدائی طور پر طیفا ان ٹربل کی جھلکیاں پھر بھارتی فلموں ’تھری ایڈیٹس‘، ’دل چاہتا ہے‘ اور متعدد فلموں کے فریمز شامل ہیں۔ اس بات کی تسلی ہوئی کہ اب کم ازکم انہیں فریم ڈھنگ سے کاپی کرنا تو آگئے ہیں۔

اس فلم کی سنیماٹوگرافر سلیمان رزاق ہیں جن کا کام قابلِ تعریف ہے۔ فلم کا ایک سین دیکھ کر بہت ہنسی آئی جبکہ سین بہت سنجیدہ تھا۔ ماہرہ خان جو لندن میں رہتی ہیں، بالغ اور باشعور ہیں، اپنی زندگی کے فیصلے کررہی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکچر (ماہرتعمیرات) ہیں، وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں آرام فرما رہی ہیں۔ ان کے پہلو میں جو کتاب شاید ان کے زیرِمطالعہ ہے وہ کتاب ’ہیری پورٹر‘ تھی۔ اس پر اب مزید کیا بات کی جائے۔ ایسی بچکانہ غلطیوں کے لیے ہدایت کار داد کے مستحق ہیں۔

اداکاری

اس فلم میں مرکزی کردار ماہرہ خان اور ہمایوں سعید نے نبھائے ہیں۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ دونوں کیسے فنکار ہیں۔ ہمایوں سعید نے متعدد مقامات پر اداکاری کا حق ادا کیا ہے۔ ماہرہ کے ویژول اور وہ فریمز جن میں ان کے حسن کو عکس بند کرکے پیش کرنے کی کوشش کی گئی، وہ بہت متاثر کن اور رومانوی ہیں۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں البتہ اداکاری میں وہ اپنے روایتی انداز میں ہی رہیں، کچھ خاص یا الگ کام نظر نہیں آیا۔ شاید کمرشل فلموں میں اور ایسے کمزور اسکرپٹ میں اداکاروں کے پاس گنجائش بھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی اداکارانہ صلاحیتیں دکھائیں۔

  ہمایوں سعید اور ماہرہ خان کی اداکارہ فلم میں روایتی رہی—تصویر: آئی ایم ڈی بی
ہمایوں سعید اور ماہرہ خان کی اداکارہ فلم میں روایتی رہی—تصویر: آئی ایم ڈی بی

جب اس فلم کے پس منظر میں تھیم دوپختون گھرانوں کا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ پختون فلم انڈسٹری کے دو ہیرے اور لیونگ لیجنڈز آصف خان اور عجب گل جیسے اداکاروں کو موقع دیا جاتا۔ زبردستی کے پختون بننے والے عثمان پیرزادہ اور جاوید شیخ کی بجائے کسی اور حقیقی پختون اداکار یا اداکارہ کو موقع دیتے۔

دیگر فنکاروں میں رمشا خان، احمد علی بٹ اور مرینہ خان نے جس قدر بوجھل اور اکتاہٹ بھری اداکاری کی ہے، اس پر انہیں داد دینی چاہیے جنہیں نہ جانے کس نے بتا دیا ہے کہ کمرشل فلموں میں اداکاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تمام اس فلم کی مس کاسٹنگ ہیں۔ نئے چہرے کے طور پر مانی لیاقت نے بطور کامیڈین اچھا کام کیا ہے۔

موسیقی

اس فلم میں موسیقی ایک بڑا شعبہ ہے۔ اس فلم میں چار موسیقاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جن میں شانی ارشد، عدنان دھول، سعد سلطان اور شیراز اپل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عارف لوہار اور راؤچ کلا کا گیت ’آتینوں موج کراواں‘ جیسا مقبول گیت بھی شامل کیا گیا ہے۔ فلم میں ایک پختون گیت ’سدا اشنا‘ کے علاوہ کئی رومانوی گیت شامل ہیں جو اچھے ہیں مگر سب رومانوی گیتوں کی میلوڈی ایک جیسی ہی محسوس ہوئی۔ حیرت ہے کہ اتنے سارے موسیقار مل کر بھی کوئی مختلف گیت تخلیق نہیں کر پائے۔ ان گیتوں میں ’ٹوٹ گیا‘، ’جادو سا‘ اور ’بے خبریا‘ و دیگر شامل ہیں۔

اس فلم کا ٹائٹل سونگ ’دل توڑن والیا‘ البتہ مجھے بہت پسند آیا جسے عدنان دھول اور فارس شفیع نے گایا ہے۔ یہ کہا جائے کہ اس فلم کا یہ سب سے زوردار گیت ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس گیت کو ہٹ ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ یہ گیت اس فلم کی پروموشن میں زیادہ شامل نہ تھا، اس لیے دیکھنے والوں کی نظر سے اوجھل ہوگیا۔ اسے شوٹ بھی بہت اچھی طرح کیا گیا ہے۔

اسی طرح دوسری طرف اس فلم کے ایک گیت ’بے خبریا‘ نے بھی مجھے حیرت میں مبتلا کردیا۔ میلوڈی تو اچھی ہے سننے میں، پکچرائزڈ بھی بہت اچھا ہوا ہے لیکن اس کی شاعری یعنی ردیف قافیے میں اردو زبان کی سنگین غلطیاں ہیں اور پورا گانا غلط اردو شاعری کے ساتھ گا دیا گیا ہے۔ شیراز اپل اور نرمل رائے کی آواز میں، اس شاندار غلط اردو میں گائے گئے گانے پر اس گیت کے موسیقار اور گلوکار شیراز اپل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس گانے کو مبشر حسین نے لکھا ہے مگر ظاہر ہے یہ فیصلہ تو موسیقار کو کرنا ہوتا ہے کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے۔

یہ گیت سماعت کیجیے اور اس گیت میں قافیے اور ان کی ادائیگی کو سماعت کیجیے اور داد دیجیے یعنی اب پاکستانی فلموں میں یہ بھی ہوگا۔ وہ غلطیاں جو بھارتی فلموں میں عام ہیں، وہ اب ہمارے ہاں بھی ہوں گی۔ ویسے تو فلم کے نام میں بھی ہندی کا لفظ گُرو ہے لیکن چلیے کوئی بات نہیں، کم ازکم وہ درست معنوں میں تو استعمال ہوا ہے لیکن یہاں تو زبان ہی غلط کردی گئی تو اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردو شاعری کے ساتھ اس مذاق پر شیراز اپل کو ضرور اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے کہ انہوں نے یہ کیا تجربہ کیا ہے۔

پہلے دو مصرعے یہاں نقل کررہا ہوں۔ آپ خود انہیں پڑھیں اور پھر سنیں کہ انہیں گیت میں کیسے ادا کیا گیا ہے، پورے گیت میں یہ قافیے کے نام پر غلط تلفظ اداکیا گیا ہے۔

بے خبریا (یہ تو اردو کا کوئی لفظ ہی نہیں ہے)

بے خبریا، عشق میں میرے روح بھر گیا

بے خبریا، دل کو تو میرے رنگ دیا

حرف آخر

اختتام میں تمام تر تنقید کے قطع نظر، لو گرو فلم کے سنیما میں شوز عید کے موقع پر ہاؤس فُل جارہے ہیں۔ کراچی کے علاوہ لاہور اور ملتان سمیت دیگر شہروں میں میرے دوستوں نے اس بات کی تصدیق کی۔ تو جہاں تک عوام کے سنیما کو سپورٹ کرنے کا تقاضا ہے تو اس فلم کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

پاکستانی سنیما کو ضرورت ہے کہ ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں، اس کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود لہذا ہم کھڑے ہیں مگر اپنے قدموں پر تادیر کھڑا رہنے کے لیے ہر وقت سیکھنا پڑے گا۔

  عوام سنیما گھروں میں اس فلم کو بھرپور سپورٹ کررہے ہیں—تصویر: آئی ایم ڈی بی
عوام سنیما گھروں میں اس فلم کو بھرپور سپورٹ کررہے ہیں—تصویر: آئی ایم ڈی بی

لیکن ہم بطور ناقدین نشاندہی کرتے رہیں گے چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے۔ کمرشل سنیما کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ فلم سازی کے بنیادی رموز سے ناآشنا ہوجائیں اور تخلیق کو نکال باہر کریں۔

تاہم عید کے موقع پر فلم بینوں سے درخواست ہے یہ فلم دیکھنے ضرور جائیے۔ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ پاکستانی سنیما کو ضرورت ہے کہ اس کا ساتھ دیا جائے۔ میں نے بھی اس بات پر عمل کیا ہے، میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ فلم دیکھنے گیا ہوں۔ آپ بھی جائیے مگر تبصرہ حقائق پر مبنی ہی ہوگا۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔