دنیا

9 یورپی ممالک کا مغربی کنارے میں قائم اسرائیلی بستیوں کے ساتھ تجارت ختم کرنے کیلئے تجاویز پیش کرنے کا مطالبہ

9 یورپی ممالک کا مغربی کنارے میں قائم اسرائیلی بستیوں کے ساتھ تجارت ختم کرنے کیلئے تجاویز پیش کرنے کا مطالبہ

یورپی یونین کے 9 ممالک نے یورپی کمیشن سے مغربی کنارے میں قائم اسرائیلی بستیوں کے ساتھ یونین کی تجارت کو ختم کرنے کے لیے تجاویز پیش کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

دی ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ نے خبر رساں ادارے رائٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپی یونین کے 9 ممالک نے یورپی کمیشن کو خط لکھا ہے جس میں اس سے مغربی کنارے میں قائم اسرائیلی بستیوں کے ساتھ یورپی یونین کی تجارت کو ختم کرنے کے لیے تجاویز پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ خط یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالاس کے نام ہے، جس پر بیلجیم، فن لینڈ، آئرلینڈ، لکسمبرگ، پولینڈ، پرتگال، سلووینیا، اسپین اور سویڈن کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے ہیں۔

خیال رہے کہ یورپی یونین اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جس سے اسرائیل اپنی ایک تہائی تجارت کرتا ہے، گزشتہ سال یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ اشیاء کی تجارت 42.6 ارب یورو (تقریباً 48.91 ارب امریکی ڈالر) رہی، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس تجارت میں اسرائیلی بستیوں کا کتنا حصہ شامل تھا۔

اپنے خط میں وزرائے خارجہ نے جولائی 2024 میں جاری ہونے والے بین الاقوامی عدالت انصاف کے مشاورتی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اور وہاں کی بستیوں کا قیام غیر قانونی ہے۔

عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ریاستوں کو ایسے تجارتی یا سرمایہ کاری تعلقات سے گریز کرنا چاہیے جو اس صورتحال کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوں۔

وزرائے خارجہ نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ہم نے اب تک کوئی ایسی تجویز نہیں دیکھی جس میں یہ بات کی گئی ہو کہ غیر قانونی بستیوں کے ساتھ اشیاء و خدمات کی تجارت کو مؤثر طریقے سے کیسے روکا جائے۔

9 یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یورپی کمیشن ایسے ٹھوس اقدامات کے لیے تجاویز تیار کرے، تاکہ عدالت کی طرف سے واضح کی گئی ذمہ داریوں پر یورپی یونین عملدرآمد کر سکے۔

اسرائیل کے یورپی یونین میں سفارتی مشن نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

دنیا

غزہ: بھوک سے نڈھال نہتے فلسطنیوں پر اسرائیلی ٹینکوں، طیاروں، کواڈ کاپٹر بموں سے حملہ، 81 شہید

غزہ: بھوک سے نڈھال نہتے فلسطنیوں پر اسرائیلی ٹینکوں، طیاروں، کواڈ کاپٹر بموں سے حملہ، 81 شہید

اسرائیلی حملوں میں غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں کم از کم 81 افراد شہید ہو گئے، ان میں بھوک سے متاثرہ خوراک کی تلاش میں امدادی مرکز کے باہر موجود 16 وہ فلسطینی بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی افواج نے ٹینکوں، کواڈکاپٹر بموں سے نشانہ بنایا۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ جمعرات 19 جون کی صبح سے اب تک مارے جانے والوں میں سے 59 افراد غزہ شہر اور شمالی علاقوں میں جاں بحق ہوئے، 16 دیگر افراد شمالی اور جنوبی غزہ کو تقسیم کرنے والے نیتزاریم کوریڈور کے قریب امداد کے انتظار میں تھے، اس حملے میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔

امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن کی جانب سے خوراک کی تقسیم کے لیے لوگ روزانہ جمع ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ نے اس فاؤنڈیشن پر امداد کو ’ہتھیار‘ بنانے کا الزام لگایا ہے۔

امدادی مقام پر اسرائیلی حملے کے گواہ بسام ابو شعر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ لوگ خوراک حاصل کرنے کی امید میں رات سے جمع تھے۔

انہوں نے فون پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’رات کے وقت انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کر دی، ٹینکوں، طیاروں اور کوآڈ کاپٹر بموں سے فائرنگ میں شدت آگئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہ تو ان کی مدد کر سکتے تھے اور نہ ہی خود فرار ہو سکتے تھے، ہجوم کے بڑے حجم کی وجہ سے اسرائیلی گولا باری سے بچنا ممکن نہیں تھا، خاص طور پر شہدا جنکشن کے قریب رش بہت زیادہ تھا۔

حالیہ ہفتوں میں خوراک کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

دنیا

غزہ: اسرائیلی ٹینکوں کی امدادی مرکز کے قریب گولا باری، شہید فلسطینیوں کی تعداد 74 ہوگئی

غزہ: اسرائیلی ٹینکوں کی امدادی مرکز کے قریب گولا باری، شہید فلسطینیوں کی تعداد 74 ہوگئی

اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کی پٹی میں امدادی ٹرکوں سے خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع ہجوم پر گولا باری کردی، جس کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 74 تک جاپہنچی ہے، 200 فلسطینی زخمی ہوئے، طبی ماہرین کے مطابق یہ واقعہ ان مہلک ترین واقعات میں سے ایک تھا، جب شدید بھوک کے شکار افراد خوراک کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں خان یونس (جنوبی غزہ) کی ایک سڑک پر درجن بھر سے زائد لاشیں بکھری ہوئی دیکھی گئیں، اسرائیلی فوج نے اس علاقے میں فائرنگ کا اعتراف کرتے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

عینی شاہدین نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ہزاروں افراد مرکزی مشرقی سڑک پر جمع تھے، جو امدادی ٹرکوں کے گزرنے کا راستہ ہے، اور اسی دوران اسرائیلی ٹینکوں نے کم از کم 2 گولے داغے۔

عینی شاہد علاء نے نصیر ہسپتال میں رائٹرز کو بتایا کہ ’اچانک انہوں نے ہمیں آگے بڑھنے دیا، سب کو ایک جگہ جمع کر دیا، اور پھر ٹینک کے گولے گرنے لگے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ان لوگوں پر رحم نہیں کر رہا، لوگ شہید ہو رہے ہیں، اپنے بچوں کے لیے خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں ان کے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں، ان لوگوں کو دیکھو، یہ سب آٹے کے لیے چیتھڑوں میں تبدیل ہو گئے تاکہ اپنے بچوں کو کھانا کھلا سکیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم 51 افراد شہید اور 200 زخمی ہوئے، جن میں سے کم از کم 20 کی حالت نازک ہے، زخمیوں کو سول گاڑیوں، رکشوں، اور گدھا گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال لایا گیا۔

اسرائیلی افواج نے ایک بیان میں کہا کہ آج خان یونس کے علاقے میں ایک امدادی ٹرک کے قریب ہجوم دیکھا گیا، جو پھنس گیا تھا، اور وہ اسرائیلی افواج کے قریب تھا جو اس علاقے میں کارروائی کر رہی تھیں۔

بیان کے مطابق فوج کو ہجوم کے قریب آنے کے بعد اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے زخمی افراد کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، اس واقعے کی تفصیلات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اسرائیلی فوج بے گناہ لوگوں کو ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتی ہے اور نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے، جب کہ اپنی افواج کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے۔

طبی ذرائع کے مطابق دیگر اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں میں کم از کم 14 مزید افراد شہید ہوئے، جس سے منگل کے روز مجموعی شہدا کی تعداد کم از کم 65 ہو گئی۔

یہ واقعہ گزشتہ 3 ہفتوں میں امداد کے متلاشی فلسطینیوں پر روزانہ ہونے والے مہلک حملوں میں تازہ ترین ہے، جب سے اسرائیل نے اس علاقے پر لگائی گئی مکمل ناکہ بندی کو جزوی طور پر ہٹایا ہے جو تقریباً 3 ماہ تک جاری رہی۔

دنیا

غزہ میں خوراک کے متلاشی نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملے، 40 شہید

غزہ میں خوراک کے متلاشی نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملے، 40 شہید

غزہ میں صہیونی فورسز کی فائرنگ سے مزید 40 افراد شہید ہوگئے جن میں سے تقریباً نصف کو امریکا کی زیر نگرانی چلنے والے امدادی کیمپ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔

کی تباہی کے بعد اسرائیل بچ جانے والے مظلوم فلسطینیوں کو خوارک کی تلاش میں بھی مسلسل پریشان کر رہا ہے، اسرائیل نے امریکا کی زیرنگرانی چلنے والے امدادی کیمپ کے قریب حملہ کر کے 40 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اس وقت ہوا جب نہتے شہری امریکی تعاون سے چلنے والے امدادی تنظیم ’غزہ ہیومینٹیرین فاؤندیشن‘ کے کیمپ کی جانب خوارک کی تلاش میں جارہے تھے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں اسرائیلی امداد تقسیم کرنے کے منصوبے کی مذمت کی ہے۔

ہیلتھ ورکرز کی جانب سے بتایا گیا کہ رفح میں امدادی کیمپ کے قریب اسرائیلی حملے سے 20 افراد شہید جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے تقریبا 3 ماہ کے مکمل ناکہ بندی کو جزوی طور پر ہٹانے کے بعد جب سے امداد کی تقسیم کا نیا فارمولا پیش کیا ہے اس وقت سے روزانہ کی بنیاد پر امداد کے متلاشی سیکڑوں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اسرائیل نے امریکا کے زیر نگرانی چلنے والی ایک امدادی تنظیم کو غزہ میں امداد تقسیم کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، تاہم یہ ادارہ بھی اسرائیلی افواج کی نگرانی میں پٹی کے تین مختلف مقامات پر امداد تقسیم کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے اسرائیل کے امریکی نگرانی میں چلنے والے امدادی منصوبے پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ناکافی، خطرناک، انسانی حقوق اور غیر جانبداری کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

رفح میں امدادی کیمپ کے قریب فلسطینیوں کی شہادتوں پر تاحال اسرائیل کی طرف سے کوئی ردعمل سامنےنہیں آیا۔ ماضی میں بھی اسرائیل امدادی کیمپوں کے قریب نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بناتا رہا ہے لیکن اسرائیل، حماس پر تشدد کو بڑھاوا دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔

امدادی کیمپ کے قریب بے رحمانہ طریقے سے شہید ہونے والے افراد کے لواحقین نصر ہسپتال پہنچے، جہاں خواتین اور بچے سفید کفن میں لپٹی لاشوں کے پاس روتے دکھائی دے رہے تھے۔

خوارک کی تلاش میں جانے والے احمد فیاد نے کہا ’ہم امدادی کیمپ میں اپنے بچوں کے لیے کھانے کی تلاش میں گئے تھے لیکن وہ ہمیں مارنےکی ایک چال تھی، میں سب کو مشورہ دوں گا کہ وہاں مت جانا‘۔

امداد کی تقسیم کا مہلک نظام

اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجرین کے لیے ادارے ’یو این آر ڈبلیو اے‘ کے سربراہ فلپ لازارینی نے سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’گزشتہ کئی دنوں کے دوران متعدد افراد کو شہید اور زخمی کیا گیا ہے، بشمول ان لوگوں کے جو اس تقسیم کے خطرناک نظام میں خوراک کی تلاش میں امدادی کیمپس کا رخ کر رہے تھے‘۔

اسرائیل کے امداد سے متعلق نئے نظام سے قبل غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کو اقوام متحدہ کے ادارے ’یو این آر ڈبلیو اے‘ کے ذریعے امداد فراہم کی جاتی تھی، جس کے لیے اقوام متحدہ کے ہزاروں کی تعداد میں ورکرز غزہ کے اندر امداد کی تقسیم کے لیے کام کر رہے تھے۔

اسرائیل نے کہا کہ انہوں نے امدادی کیمپ پر اس لیے کارروائیاں کی ہے کیونکہ حماس کے جنگجو خوارک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے جبکہ حماس نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

فلپل زارینی نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے پر غزہ کے باشندوں کے لیے امداد محصور پٹی میں لانے کی تیاریاں مکمل ہیں، تاہم اسرائیل نے یو این آر ڈبلیو اے سمیت اقوام متحدہ کی اداروں پر عائد پابندیاں تاحال ختم نہیں کیں۔

اسرائیلی آرمی کے زیرانتظام چلنے والے امدادی ادارے کوگاٹ (COGAT) نے کہا ہے کہ رواں ہفتے بین الاقوامی کمیونٹی اور اقوام متحدہ کے 292 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے ، ان ٹرکوں میں کھانا اور آٹا شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی آرمی بین الاقوامی امداد کو اسی صورت غزہ میں داخلے کی اجازت دے گی جب انہیں اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ یہ خوارک یا امداد حماس تک نہیں پہنچے گی۔

16 جون کے افسوس ناک واقعے سے قبل حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزیر صحت نے کہا کہ جب سے اسرائیل کا امریکی نگرانی میں امداد کی تقسیم کا منصوبہ شروع ہوا اس وقت سے امدادی کیمپوں کے اطراف میں 300 سے زائد افراد کو شہید اور 2600 سے زائد کو زخمی کیا جا چکا ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر والکر ترک نے ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا کہ اسرائیل، غزہ میں خوارک کو ’بطور ہتھیار‘ استعمال کر رہا ہے، انہوں نے امدادی کیمپ کے اطراف قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

والکر ترک نے کہا کہ ’اسرائیل کے جنگی حربے غزہ میں فلسطینیوں کو ہولناک اور ناقابل برداشت تکلیف پہنچا رہے ہیں، اسرائیلی حکومت کے سینئر اہلکاروں کے پریشان کن اور غیر انسانی بیانات سنگین جرائم کی یاد دلاتے ہیں‘۔

15 جون کو پانچ فلسطینیوں کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ جی ایچ ایف کے وسطی اور جنوبی امدادی کیمپس کی جانب امداد کے حصول کے لیے جا رہے تھے۔

اسرائیل اور امریکا کی نگرانی میں چلنے والے امدادی ادارے غزہ ہیومینٹیرین فاؤندیشن نے کہا کہ اس نے 15 جون سے امداد کی تقسیم کا عمل بحال کر دیا ہے، جی ایچ ایف نے دعویٰ کیا کہ بغیر کسی افسوس ناک واقعے کہ انہوں نے مختلف کیمپس پر 20 لاکھ سے زائد کھانے کے پیکٹس تقسیم کیے ہیں۔

غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے اپنے وحشیانہ حملوں میں 55 ہزار فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ گنجان آباد پٹی کا زیادہ تر حصہ تباہ، آبادی کا بڑا حصہ بے گھر اور وسیع پیمانے پر غذائی قلت تشویش کا باعث ہے۔

نقطہ نظر

’کیا ایران کا اگلا ہدف امریکی فضائی اڈے اور اثاثے ہوں گے؟‘

’کیا ایران کا اگلا ہدف امریکی فضائی اڈے اور اثاثے ہوں گے؟‘

ہر فوجی مہم کے واضح اہداف ہونا ضروری ہوتے ہیں اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ امریکی اور مغربی حکومتوں کی خاموش حمایت سے بڑے پیمانے پر جاری فضائی بمباری کے ذریعے ایران کے ساتھ جنگ شروع کرنے کا اس کا بنیادی مقصد ایران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی جانب پیش قدمی کو روکنا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ یہ کھلے عام نہ کہا گیا ہو لیکن اس کا ایک اہم مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی ہے تاکہ یہاں اسرائیل کے دیگر مشرق وسطی/علاقائی ہمسایوں جیسی حکومت بنانے کی کوشش کی جاسکے جو تل ابیب کے ساتھ دوستی کرکے خوش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کی صرف زبانی مذمت یا علامتی تنقید کرتے ہیں۔

ایک وسیع جنگ، غزہ میں جاری مسلسل بمباری، دیگر عسکری طریقوں اور فاقہ کشی سے کی جانے والی اس صدی کی بدترین نسل کشی سے توجہ ہٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ غزہ میں خوراک کی فراہمی معطل ہونے سے اسرائیل کے یورپی اتحادیوں میں تھوڑی بہت بےچینی پائی جارہی تھی حالانکہ انہوں نے اب تک غزہ کے معاملے پر اسرائیل کی غیر مشروط مادی اور سفارتی حمایت کی ہے۔

یورپی اتحادی میں نے اس لیے کہا کیونکہ امریکی انتظامیہ نسل پرست اسرائیلی حکومت کی مضبوطی سے حمایت کررہی ہے جو امریکی صدر کے ’غزہ رویرا منصوبے‘ پر عمل پیرا ہے۔ یہ غزہ کے ساحلوں کو سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کا ایک تصور ہے جس میں تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی زمین چھوڑنے اور دیگر (ممکنہ مسلم) ممالک میں منتقل ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔

درحقیقت غزہ کی نسل کشی اکتوبر 2023ء کے حملوں کے دوران یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے حوالے سے نہیں ہے۔ امریکی صدارتی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کے اقدامات سمیت بہت سارے ثبوت موجود ہیں۔ اسٹیو ویٹکوف کے خاندان کے کرپٹو کرنسی کے ذریعے ٹرمپ خاندان سے کاروباری تعلقات ہیں۔ امریکی ایلچی نے کم از کم دو بار ایسے معاہدوں سے دستبرداری اختیار کی ہے جن کی وجہ سے حماس کی اسیری میں موجود یرغمالیوں کی رہائی یا تبادلہ ممکن تھا۔ دوسری جانب سیکڑوں فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں جن کی صورت حال یرغمالیوں سے بہتر نہیں۔

اسرائیل کی غیرمشروط حمایت کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کھلے تصادم میں اپنی افواج کو جھونکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی مکمل کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح امریکا کو ایران کے ساتھ جنگ میں دھکیلا جائے۔

اسرائیل کی فضائی بمباری میں کئی سینئر ایرانی عسکری کمانڈرز، پاسدارانِ انقلاب کے لیڈران اور ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ایران کی جانب سے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر بھرپور میزائل داغے گئے۔ اس سب کے دوران اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اور اسرائیلی دفاعی فورسز کے سابق سربراہ ایہود باہاک نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے کرسٹیئن ایمن پور کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان مقاصد میں سے کچھ کی وضاحت کی۔

ایہود باہاک نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کے فضائی حملوں سے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں چند ہفتوں کی ’تاخیر‘ ہوسکتی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اگر امریکا بھی اسرائیل کی فضائی جنگی مہم کا حصہ بن جاتا ہے تب بھی وہ ایران کے مقصد کے حصول میں زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی تاخیر کا سبب بن پائیں گے۔ انہوں نے بتایا، ’ان (ایران) کے پاس 400 کلوگرام یورینیم افزودہ ہے جو 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ درست آلات کے ساتھ وہ گودام میں بھی اسے 90 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں اور پھر ان کے پاس ایٹم بم ہوگا‘۔

انہوں نے بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ کا حوالہ دیا جنہوں نے کہا تھا کہ ایران کی بہت سی اہم تنصیبات پرانی بارودی سرنگوں وغیرہ میں ’سینکڑوں گز‘ زیر زمین ہیں، ایہود باہاک نے کہا کہ یہ مقامات ’ہماری دسترس سے باہر ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’مجھے کوئی وہم نہیں ہے کہ ہم انہیں نقصان پہنچانے یا معمولی چوٹ پہنچانے سے زیادہ کچھ کرپائیں گے‘۔

اسرائیلی دفاعی فورسز کے سابق سربراہ نے مزید کہا کہ فضائی حملوں میں ابتدائی طور پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جوکہ توقعات سے زیادہ تھیں، ان کامیابیوں کی بنیاد پر ایران کو جوہری ڈیل کے جانب دھکیلنا چاہیے، غزہ میں جنگ ختم کرنی چاہیے اور اسے سعودی عرب سمیت خطے میں وسیع تر امن کی کوششوں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس میں وقت لگے گا اور یہ آسان نہیں ہوگا لیکن پھر بھی یہ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر اسرائیل کے لیے تنازع کو طول دینا مشکل ہوگا تو اس لیے اسے کہنا چاہیے کہ ’ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم نے کیا، اب آپ کی باری ہے‘۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیلی انٹیلی جنس کی جانب سے ایرانی فوج کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے کو ایران میں اندرونی تقسیم کے مظہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ایہود باہاک نے بھی ایرانی رجیم کی تبدیلی کے مسئلے پر توجہ دی۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کو ایرانی سرزمین پر اتارے بغیر رجیم چینج ممکن نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکا نے کوریا، ویتنام اور افغانستان جیسے ممالک میں جنگیں نہیں جیتیں اور پوچھا کہ ’وہ جنگیں کیسے ہوئیں؟‘ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا صدر ٹرمپ یا کوئی امریکی رہنما حتیٰ کہ امریکی عوام بھی واقعی ایک اور جنگ میں اپنی فوج بھیجنا چاہیں گے؟

یہ سچ ہے کہ 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر باراک اوباما کی قیادت میں ہونے والے معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کیا تھا جس کے تحت امریکا نے ایران پر پابندیاں نرم کی تھیں اور ایران نے اپنا جوہری پروگرام روک دیا تھا۔ ٹرمپ کے معاہدہ ختم کرنے سے ایران نے دوبارہ یورینیم کی افزودگی شروع کردی یہاں تک کہ وہ ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ گیا۔ تو ایک طرح یہ جنگ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے حوالے سے کم بلکہ ایران کو امریکا اور اسرائیل کی منشا کے آگے سر جھکانے پر مجبور کرنے کے حوالے سے زیادہ ہے۔

اسی لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تنازع میں غالب کون رہے گا۔ امریکا اور پوری مغربی پیداوار، جدید ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی اور سپلائی سے یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ اسرائیل جنگ میں ایران کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران کے پاس عملی طور پر واقعی کوئی فضائیہ نہیں ہے اور اس کے فضائی دفاعی نظام میں بھی خامیاں نظر آتی ہیں۔

دو ہزار بیلسٹک میزائل کا اس کا ذخیرہ آخر کتنے وقت تک کافی ہوگا؟ اس کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں۔ اب تک ایران پر جب بھی بڑے حملے ہوئے ہیں، وہ مزاحمت کرنے اور جوابی کارروائی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تنازع طول پکڑتا ہے تو اسرائیل طویل مدتی طور پر اپنی جنگی پائیداری برقرار رکھ پائے گا یا پھر کوئی تیسرا فریق جنگ روکنے میں ثالثی کرے گا؟

یا ایران کو زیادہ دیوار سے لگایا گیا تو کیا وہ خطے میں امریکی اڈوں اور اثاثوں اور یہاں تک کہ امریکی افواج کی میزبانی کرنے والے اقوام پر براہ راست حملہ کرکے تنازع کو وسیع کرے گا تاکہ اسے روکنے کے لیے ممالک پر دباؤ بڑھے؟ ایسے کسی بھی واقعے کے اثرات نہ صرف خطے کی لاکھوں زندگیوں پر مرتب ہوں گے بلکہ عالمی معیشت پر یہ اثر انداز ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

دنیا

غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 58 فلسطینی شہید، جھڑپوں میں ایک صہیونی فوجی ہلاک

غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 58 فلسطینی شہید، جھڑپوں میں ایک صہیونی فوجی ہلاک

غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مزید 58 فلسطینی شہید ہوگئے، مقبوضہ علاقے میں 3 دن بعد انٹرنیٹ کی سہولت بحال ہوگئی ہے جبکہ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں جھڑپوں کے دوران اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگیا۔

الجزیرہ نے مقامی صحت حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں میں غزہ کی پٹی میں کم از کم 58 فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں سے کئی فلسطینیوں کو امریکی حمایت یافتہ ’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘ ( جی ایچ ایف) کے امدادی مرکز کے قریب شہید ہوئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مرکزی غزہ کے علاقے میں واقع الشفا اور الاقصیٰ ہسپتالوں میں موجود طبی عملے نے بتایا کہ کم از کم 15 افراد اُس وقت جاں بحق ہوئے جب وہ نیٹزاریم کاریڈور کے قریب جی ایچ ایف کے امدادی تقسیم کے مقام کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے، باقی افراد غزہ کے محصور اور مسلسل بمباری کا شکار دیگر علاقوں میں مختلف حملوں میں شہید ہوئے۔

فلسطینی ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 3 روزہ بلیک آؤٹ کے بعد انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی ہے، جس کا الزام اسرائیلی فوج پر عائد کیا جا رہا ہے۔

ریگولیٹری ادارے کے سی ای او، لیث دارغمہ نے کہا کہ ’اب پوری غزہ پٹی میں نیٹ ورک فعال ہے‘۔

فلسطینی اتھارٹی کی وزارتِ مواصلات نے رواں ہفتے کے آغاز میں اطلاع دی تھی کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فائبر آپٹک کیبل کو نشانہ بنانے کے بعد انٹرنیٹ اور فکسڈ لائن مواصلات بند ہو گئے تھے, اسرائیل نے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وزارت مواصلات کا کہنا تھا کہ مرمت کرنے والی ٹیمیں ابتدا میں ان علاقوں تک محفوظ طریقے سے رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہیں جہاں نقصان ہوا تھا۔

فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے کہا کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ نے اُن کی امدادی سرگرمیوں کو متاثر کیا کیونکہ فیلڈ میں موجود ایمرجنسی ریسپانڈرز سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، ادارے نے اس بندش کا ذمہ دار بھی اسرائیل کو ٹھہرایا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں جھڑپ کے دوران آر پی جی کے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگیا۔

اسرائیلی فوج نے اتوار کی صبح بتایا کہ مقبوضۃ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والا 21 سالہ سارجنٹ فرسٹ کلاس (ریزرو) نوام شیمش کفیر بریگیڈ کی شمشون بٹالین میں اسکواڈ کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔

فوج کے ابتدائی تحقیقات کے مطابق شیمش آر پی جی حملے میں ہلاک ہوا، جب کہ اسی واقعے میں ایک اور فوجی معمولی زخمی ہوا۔

تازہ ترین ہلاکت کے بعد غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران مارے گئے صہیونی فوجیوں کی تعداد 430 تک جاپہنچی ہے۔

ایران پر حملوں سے قبل اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں پر حملے بند کرے اور انسانی امداد کو علاقے میں آزادانہ داخل ہونے دے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ جب دنیا کی توجہ اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع پر مرکوز ہے، تو اسرائیلی فوج غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حملے مزید تیز کر سکتی ہے۔

دنیا

مصر نے غزہ کی جانب مارچ کیلئے جمع ہونے والے 200 کارکنان کو حراست میں لے لیا

مصر نے غزہ کی جانب مارچ کیلئے جمع ہونے والے 200 کارکنان کو حراست میں لے لیا

مصری حکام نے غزہ پر اسرائیل کی ناکہ بندی توڑنے کے مبینہ مقصد کے ساتھ ایک بین الاقوامی مارچ سے قبل قاہرہ میں 200 سے زائد فلسطینی حامی کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے منتظمین نے بتایا کہ جمعرات کو مصری حکام نے ’ گلوبل مارچ ٹو غزہ ’ میں حصہ لینے کے خواہش مند 200 سے زائد کارکنان کو حراست میں لے لیا ہے۔

’ گلوبل مارچ ٹو غزہ’ کے حصے کے طور پر، ہزاروں کارکنوں نے انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کرنے کے لیے جمعہ کو فلسطینی علاقے کے ساتھ مصر کی سرحدی گزرگاہ رفح کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

مارچ کے ترجمان سیف ابوکیشک نے اے ایف پی کو بتایا کہ قاہرہ ایئرپورٹ پر 200 سے زائد شرکاء کو حراست میں لیا گیا یا قاہرہ کے مختلف ہوٹلوں میں ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حراست میں لیے جانے والوں میں امریکا، آسٹریلیا، نیدرلینڈز، فرانس، اسپین، مراکش اور الجزائر کے شہری شامل تھے۔

سیف ابوکیشک نے کہا کہ بدھ کو سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار ناموں کی فہرستوں کے ساتھ قاہرہ کے ہوٹلوں میں داخل ہوئے، کارکنوں سے پوچھ گچھ کی اور بعض کارکنان کے موبائل فون ضبط کیے اور ذاتی سامان کی تلاشی لی۔

انہوں نے کہا کہ پوچھ گچھ کے بعد کچھ کو گرفتار کیا گیا اور کچھ کو رہا کر دیا گیا۔

سیف ابوکیشک نے بتایا کہ قاہرہ ہوائی اڈے پر، کچھ زیر حراست افراد کو بغیر کسی وضاحت کے کئی گھنٹوں تک روکا گیا، اور دیگر کو ملک بدر کر دیا گیا، تاہم انہوں نے درست تعداد نہیں بتائی۔

انہوں نے کہا کہ بیس فرانسیسی کارکن، جنہوں نے مارچ میں شامل ہونے کا منصوبہ بنایا تھا، کو قاہرہ ہوائی اڈے پر 18 گھنٹے تک روکا گیا۔

اے ایف پی کے ساتھ شیئر کی گئی فوٹیج میں درجنوں لوگ اپنے سامان کے ساتھ ہوائی اڈے کے ایک ہولڈنگ روم میں بھرے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

ایک جرمن شہری نے ایک ویڈیو میں کہا، ’ ہم یہاں اس کمرے میں اتنے سارے لوگوں کے ساتھ بند ہیں، تقریباً 30-40 لوگ ہیں، میں نے سفارت خانے کو فون کیا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے لوگ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

یونانی دستے نے ایک بیان میں کہا کہ قاہرہ ہوائی اڈے پر زیر حراست افراد میں درجنوں یونانی شہری بھی شامل تھے، باوجود اس کے کہ ان کے پاس تمام قانونی سفری دستاویزات تھیں، اور انہوں نے کوئی قانون شکنی نہیں کی تھی اور مصر میں قانونی طریقے سے پہنچے تھے۔

قاہرہ کے سیکورٹی چیف نے اے ایف پی کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

دباؤ

21 ماہ کی جنگ کے بعد، اسرائیل کو غزہ میں مزید امداد پہنچانے کی اجازت دینے کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے غزہ کو ’ زمین پر سب سے زیادہ بھوک کا شکار مقام’ قرار دیا ہے۔

ایک اور قافلہ جسے عربی می’ صمود’ یا ثابت قدمی کہا جاتا ہے، پیر کو تیونس کے دارالحکومت سے روانہ ہوا تھا، اس امید کے ساتھ کہ وہ تقسیم شدہ لیبیا اور مصر سے گزر کر غزہ پہنچ سکے گا،جس کے بارے میں منتظمین کا کہنا ہے کہ ابھی تک گزرنے کے اجازت نامے فراہم نہیں کیے گئے۔

’ گلوبل مارچ ٹو غزہ’ کے منتظمین نے کہا کہ 40 سے زائد ممالک کے تقریباً 4000 شرکاء اس مارچ میں حصہ لیں گے، جن میں سے بہت سے جمعہ کے مارچ سے قبل ہی پہنچ چکے ہیں۔

منصوبے کے مطابق، شرکاء بس کے ذریعے انتہائی محفوظ سینائی جزیرہ نما میں واقع العریش شہر کا سفر کریں گے، اس کے بعد غزہ کی سرحد کی طرف 50 کلومیٹر (30 میل) پیدل چلیں گے، وہ پھر وہاں کیمپ لگائیں گے اور 19 جون کو قاہرہ واپس لوٹیں گے۔

اسرائیل نے مصری حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مصر-اسرائیل سرحد پر جہادی مظاہرین کی آمد کو روکے۔

وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ ایسے اقدامات (اسرائیلی) فوجیوں کی حفاظت کو خطرے میں ڈالیں گے اور اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس کے جواب میں، مصر کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اگرچہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے، لیکن سرحدی علاقے کا دورہ کرنے والے کسی بھی غیر ملکی وفد کو سرکاری ذرائع سے منظوری حاصل کرنی ہوگی۔

سیف ابوکیشک کا کہنا تھا کہ ہم جو کچھ ہوا اس کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گےکیونکہ مصر میں موجودہ تعداد اور آنے والے لوگوں کی متوقع تعداد اس مارچ کو منظم کرنے کے لیے کافی ہے۔

دنیا

آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں، امریکی سفیر

آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں، امریکی سفیر

اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی نے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور فلسطینی ریاست کے لیے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی سفیر نے کہا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے۔

تاہم، امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے اسرائیل میں امریکی سفیر کے اس بیان پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بیان کی کوئی وضاحت نہیں کروں گی، میرے خیال میں انہوں نے ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ بلومبرگ نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب امریکی سفیر مائیک ہکابی سے سوال کیا گیا کہ کیا فلسطینی ریاست اب بھی امریکی پالیسی کا ہدف ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا ’میرا نہیں خیال‘۔

محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے جب پوچھا گیا کہ آیا ہکابی کے بیانات امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ پالیسی سازی کا اختیار ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے پاس ہے۔

وائٹ ہاؤس سے جب امریکی سفیر کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ترجمان نے رواں سال کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے غزہ پر امریکی کنٹرول کی تجویز دی تھی۔

تاہم، ٹرمپ کے اس بیان کی انسانی حقوق کی تنظیموں، عرب ممالک، فلسطینیوں اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کی تھی اور اسے ’نسلی صفائی‘ کی تجویز قرار دیا تھا۔

عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مائیک ہکابی اسرائیل کے پرزور حامی اور قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں۔

بلومبرگ کو دیے گئے انٹریو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک کچھ نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں جو کلچر کو بدل دیں، اس وقت تک اس (فلسطینی ریاست) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، غالباً یہ تبدیلیاں ’ہماری زندگی میں نہیں ہوں گی‘۔

امریکی سفیر نے تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کے لیے اسرائیل کو جگہ خالی کرنے کے بجائے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔

یاد رہے کہ امریکی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقوام متحدہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔

اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے غزہ میں نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

دنیا

اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، ڈرون حملہ، امداد کے متلاشی 25 فلسطینیوں سمیت 29 شہید

اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، ڈرون حملہ، امداد کے متلاشی 25 فلسطینیوں سمیت 29 شہید

اسرائیلی افواج نے فائرنگ کرکے امداد کے متلاشی کم از کم 25 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، یہ واقعہ غزہ شہر کے جنوب میں نام نہاد نیٹرازیم کوریڈور کے قریب خوراک کی تقسیم کے مقام پر پیش آیا۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی غزہ میں خان یونس شہر کے شمال میں القرارہ قصبے کے قریب الواقع المواسی علاقے میں اسرائیلی ڈرون حملے میں بے گھر افراد کے خیمے کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 4 فلسطینی شہید ہوئے۔

اسرائیل نے غزہ جانے والی امدادی کشتی کو روکنے کے بعد اس پر سوار 12 کارکنوں میں سے 4 کو ملک بدر کر دیا ہے، جن میں سویڈن کی مہم چلانے والی گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں، دیگر 8 کارکنوں کو اسرائیل چھوڑنے سے انکار پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 55 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 27 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

فلسطینی ریاست ہماری زندگی میں ممکن نہیں، امریکی سفیر

اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام ’ہماری زندگی میں ممکن نہیں‘۔

مائیک ہکابی پرجوش ایوینجلیکل عیسائی اور اسرائیلی بستیوں کے پھیلاؤ کے زبردست حامی ہیں، انہوں نے کہا کہ ’شک ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اب بھی امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے‘۔

بلوم برگ نیوز کے ایک نشریاتی ادارے نے ان سے پوچھا کہ کیا فلسطینی ریاست کا قیام اب بھی امریکا کا مقصد ہے، تو انہوں نے کہا کہ ’مجھے ایسا نہیں لگتا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب تک کچھ اہم ثقافتی تبدیلیاں نہ ہوں، ایسا ممکن نہیں ہے‘، ان کا کہنا تھا کہ ایسی تبدیلیاں ’ہماری زندگی میں شاید ممکن نہ ہوں‘۔

ہکابی اس سے پہلے فلسطینی شناخت کے تصور پر بھی سوال اٹھا چکے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ واقعی ’فلسطینی‘ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔

دنیا کی توجہ غزہ پر مرکوز رہنی چاہیے، گریٹا تھنبرگ

فلسطین میں امداد پہنچانے کے لیے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ اسرائیل سے ملک بدری کے بعد سویڈن واپس پہنچ گئیں۔

تھنبرگ، 12 کارکنوں اور صحافیوں کے اُس گروپ میں شامل تھیں جنہوں نے غزہ جانے والی ایک انسانی ہمدردی کی امدادی کشتی پر سفر شروع کیا تھا، اب اپنے آبائی ملک سویڈن واپس پہنچ چکی ہیں، یہ کشتی اسرائیل نے اپنی تحویل میں لے لی تھی، جس کے بعد تھنبرگ کو منگل کے روز ملک بدر کر دیا گیا تھا۔

تھنبرگ نے پیرس کے راستے ہوائی سفر کیا اور منگل کی رات تقریباً 10:30 بجے اپنے وطن پہنچیں، وہاں تقریباً 30 جوشیلے حامیوں نے ان کا استقبال کیا، جو فلسطینی پرچم لہرا رہے تھے اور فلسطین زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، جب کہ میڈیا کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

گریٹا تھنبرگ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے انہیں اور کشتی ’مدلین‘ پر موجود دیگر افراد کو عالمی سمندر سے ’اغوا‘ کیا اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا، انہوں نے زور دیا کہ دنیا کی توجہ غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار پر مرکوز رہنی چاہیے۔

قانونی حقوق کی تنظیم عدالہ کے مطابق وہ 12 رکنی عملے میں شامل 4 افراد میں سے ایک تھیں جنہوں نے ملک بدری کی شرائط کو قبول کیا، باقی 8 افراد کو اسرائیلی حراستی نظرثانی ٹربیونل کے سامنے پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کے خلاف جاری حراست کے احکام کا جائزہ لیا جاسکے۔

آسٹریلوی وزیر اعظم کا اسرائیلی وزرا پر پابندیوں کا دفاع

آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ نے اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزرا ایتامار بن گویر اور بیزالیل سموٹریچ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، ان پر مقبوضہ مغربی کنارے میں بار بار فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کا الزام ہے۔

یہ اسرائیلی وزرا غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کی وکالت کرتے ہیں، اسرائیل نے ان پابندیوں کو شرمناک قرار دے کر مسترد کر دیا جب کہ امریکا نے بھی ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔

تنقید کے باوجود، آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے ان پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کے ردعمل کو ’متوقع‘ قرار دیا۔

انہوں نے اے بی سی ریڈیو سڈنی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں، اور جو توسیع پسندانہ بیانیہ ہم نے ان سخت گیر دائیں بازو کے نیتن یاہو حکومت کے وزرا کی جانب سے سنا ہے، وہ واضح طور پر ان قوانین سے متصادم ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے چینل سیون کو دیے گئے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا کہ ہم، دیگر ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر یہ یقین رکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب دو ریاستوں پر مبنی حل کی طرف بڑھا جائے، اور جب اسرائیلی اور فلسطینی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔

دنیا

برطانیہ، کینیڈا سمیت پانچ مغربی ممالک نے انتہا پسند اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردیں

برطانیہ، کینیڈا سمیت پانچ مغربی ممالک نے انتہا پسند اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردیں

برطانیہ، کینیڈا اور دیگر اتحادیوں نے دو سخت گیر اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جن پر بار بار ’ فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے’ کا الزام ہے، یہ ایک نمایاں مشترکہ اقدام ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کے مظالم پر بڑھتی ہوئی مغربی مذمت کے درمیان سامنے آیا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کے مطابق قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموتریچ پر سفری پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

اتمار بن گویر اور بیزلیل سموتریچ دونوں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں، جو وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی کمزور حکومت کو قائم رکھنے میں معاون ہیں، ان دونوں افراد کو مقبوضہ مغربی کنارے سے متعلق اشتعال انگیز بیانات اور غزہ کی جنگ پر اپنے مؤقف کے باعث شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔

یہ پابندیاں آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ کی جانب سے مشترکہ طور پر نافذ کی جا رہی ہیں، جیسا کہ ان پانچوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے۔

پانچوں ممالک کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ ہم دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہیں، جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے تحفظ اور وقار کی ضمانت دینے اور خطے میں طویل المدتی استحکام کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے، لیکن یہ حل شدت پسند آبادکاروں کے تشدد اور بستیوں کی توسیع سے خطرے میں پڑ گیا ہے۔’

بیان میں مزید کہا ہے کہ’ اتمار بن گویر اور بیزلیل سموتریچ نے انتہاپسندانہ تشدد کو ہوا دی اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں، فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنے اور نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کی وکالت کرنے والا انتہاپسندانہ بیانیہ خوفناک اور خطرناک ہے۔’

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ ہم نے اس مسئلے پر اسرائیلی حکومت سے وسیع پیمانے پر بات چیت کی ہے، لیکن پرتشدد عناصر کو مسلسل حوصلہ افزائی اور بے خوفی کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔’

پانچ مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی گئی یہ پابندیاں امریکی پالیسی سے انحراف کو ظاہر کررہی ہیں، جہاں یورپی اور دولتِ مشترکہ کے اتحادی نیتن یاہو کی حکومت پر بڑھتا ہوا دباؤ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ انتظامیہ نے بار بار امریکا-اسرائیل اتحاد کی توثیق کی ہے۔

امریکا نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اپیل کی ہے، لیکن گزشتہ ہفتے امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مغربی اتحادیوں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ یہ پابندیاں مغربی کنارے سے متعلق ہیں، تاہم یقیناً انہیں غزہ میں جاری تباہی سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا، ہم عام شہریوں کی شدید تکالیف، بشمول بنیادی امداد کی بندش، پر مسلسل تشویش میں مبتلا ہیں۔’

سموتریچ اور بن گویر دونوں مغربی کنارے کی ان بستیوں میں رہتے ہیں جنہیں فلسطینی اور بین الاقوامی برادری کی اکثریت مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ تصور کرتی ہے۔

دنیا

اسرائیل نے امدادی کشتی کے ساتھ غزہ کیلئے عازم سفر گریٹا تھنبرگ کو سویڈن روانہ کردیا

اسرائیل نے امدادی کشتی کے ساتھ غزہ کیلئے عازم سفر گریٹا تھنبرگ کو سویڈن روانہ کردیا

سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ منگل کے روز اسرائیل سے روانہ ہو گئیں، جب انہیں اسرائیلی بحریہ کی جانب سے بین الاقوامی پانیوں میں روک لی گئی غزہ جانے والی امدادی کشتی ”میڈلین“ پر حراست میں لیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ گریٹا تھنبرگ فرانس جانے والی پرواز میں ہیں، جہاں سے وہ اپنے وطن سویڈن کے سفر کو جاری رکھیں گی۔

امدادی کشتی میں سوار افراد کو قانونی معاونت فراہم کرنے والی انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم عدالہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امدادی کشتی پر سوار 3 دیگر افراد نے بھی فوری طور پر وطن واپسی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔

جبکہ عملے کے 8 دیگر ارکان ملک بدری کے حکم کو چیلنج کر رہے ہیں، انہیں عدالت میں پیشی سے قبل ایک حراستی مرکز میں رکھا جائے گا۔

قبل ازیں، خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ امدادی کشتی پر سوار گریٹا تھنبرگ سمیت دیگر کارکنان کو تل ابیب کے ایک ہوائی اڈے منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ انہیں ملک بدر کیا جا سکے۔

اسرائیلی بحری افواج نے اس کشتی کو گزشتہ روز بین الاقوامی پانیوں میں روکا اور اسے اشدود کی بندرگاہ کی طرف لے گئے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا تھا کہ ’سیلفی یاٹ‘ کے مسافر بین گوریون ایئرپورٹ پہنچ گئے ہیں تاکہ اسرائیل سے روانہ ہو کر اپنے اپنے ممالک واپس جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جو افراد ملک بدری کی دستاویزات پر دستخط کرنے اور اسرائیل چھوڑنے سے انکار کریں گے، انہیں عدالتی حکام کے سامنے پیش کیا جائے گا‘۔

اس کشتی کے منتظم ادارے ’فریڈم فلوٹیلا کولیشن‘ نے کہا تھا کہ کشتی پر تمام 12 کارکنان کو اسرائیلی حکام کی تحویل میں دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انہیں ممکنہ طور پر آج رات تل ابیب سے پرواز کی اجازت مل سکتی ہے۔

دنیا

حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں ایران بھی شریک ہے، صدر ٹرمپ

حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں ایران بھی شریک ہے، صدر ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے جاری مذاکرات میں شامل ہے، رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے اسٹیٹ ڈائننگ روم میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’غزہ کے حوالے سے اس وقت ہمارے، حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ایران بھی دراصل ان میں شریک ہے، اور ہم دیکھیں گے کہ غزہ کے ساتھ کیا ہوتا ہے، ہم یرغمالیوں کو واپس لانا چاہتے ہیں‘۔

ٹرمپ نے اس پر مزید وضاحت نہیں کی اور وائٹ ہاؤس نے ایران کی شمولیت کی تفصیلات سے متعلق فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

امریکا نے اسرائیل اور حماس کے درمیان 60 دن کی جنگ بندی کی تجویز دی ہے۔

’غزہ بھیجا گیا زیادہ تر آٹا مسلح گروہوں نے لوٹا یا بھوکے فلسطینیوں نے لے لیا‘

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے 3 ہفتے قبل امدادی ناکہ بندی ختم کیے جانے کے بعد سے وہ غزہ میں محض معمولی مقدار میں آٹا پہنچا سکا ہے، اور وہ بھی زیادہ تر مسلح گروہوں نے لوٹ لیا یا بھوکے فلسطینیوں نے لے لیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ عالمی تنظیم نے 4600 میٹرک ٹن گندم کا آٹا کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے غزہ منتقل کیا ہے، جو واحد داخلی راستہ ہے جس کے ذریعے اسرائیل اقوامِ متحدہ کو امداد پہنچانے کی اجازت دیتا ہے۔

فرحان حق نے کہا کہ غزہ میں امدادی گروہوں کا اندازہ ہے کہ ہر خاندان کو آٹے کا ایک تھیلا دینے اور بازاروں پر دباؤ اور بے چینی کو کم کرنے کے لیے 8 سے 10 ہزار میٹرک ٹن گندم کے آٹے کی ضرورت ہے۔

فرحان حق نے کہا کہ ’زیادہ تر آٹا منزل پر پہنچنے سے قبل ہی بھوکے اور مجبور لوگوں نے لے لیا جبکہ بعض واقعات میں اسےمسلح گروہوں نے لوٹ لیا‘۔

فرحان حق نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ متعدد راستوں اور گذرگاہوں سے کہیں زیادہ امداد اندر جانے کی اجازت دے۔

دنیا

نیتن یاہو کی حکومت اسرائیلوں کی نمائندگی نہیں کرتی، سابق جنرل

نیتن یاہو کی حکومت اسرائیلوں کی نمائندگی نہیں کرتی، سابق جنرل

اسرائیلی بائیں بازو کے اپوزیشن رہنما یائر گولان نے فوری طور پر غزہ میں جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت اب زیادہ تر اسرائیلی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹس پارٹی کے سربراہ اور اسرائیلی فوج کے سابق نائب سربراہ یائر گولان نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’آج اسرائیل کی حکومت اکثریتی اسرائیلی عوام کی نمائندہ نہیں رہی‘۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اپوزیشن پارلیمنٹ میں ایک ووٹنگ کی تیاری کر رہی ہے جس کا مقصد نئے عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

یائر گولان نے کہا کہ 20 ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد اب اسرائیل کو جنگ جلد از جلد ختم کرنی چاہیے۔

یائر گولان کی جماعت جو بائیں بازو کی مختلف جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے، اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی 120 نشستوں میں سے صرف 4 پر براجمان ہے، تاہم ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت سازی کے لیے اتحاد ناگزیر ہوتا ہے، چھوٹی جماعتیں بھی خاطر خواہ اثر رکھتی ہیں۔

انہوں نے موجودہ حکومت کو اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومتوں میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ یہ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔

یائر گولان کے مطابق اکثر اسرائیلی عوام کے 3 اہم مطالبات ہیں کہ غزہ میں جنگ فوری ختم کی جائے، تمام اسرائیلی قیدیوں کو ایک جامع تبادلے کے تحت واپس لایا جائے اور 2023 میں حماس کے حملے پر ایک قومی انکوائری کمیشن قائم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت ان تمام مطالبات کی مخالف ہے، یائر گولان نے اس امید کا اظہار کیا کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ چند دنوں میں ممکن ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اکثریتی عوام جلد از جلد نئے انتخابات چاہتے ہیں۔

دنیا

اسرائیل نے غزہ کیلئے امداد لے کر آنے والی کشتی کو قبضے میں لے لیا

اسرائیل نے غزہ کیلئے امداد لے کر آنے والی کشتی کو قبضے میں لے لیا

غزہ کے محصورین کے لیے امداد لے کر جانے والے کشتی ’ میڈلین’ کو اسرائیلی افواج نے اپنے قبضے میں لے کر اس پر سوار 12 کارکنان کو حراست میں لے لیا ہے، جن میں سویڈن کی موسمیاتی تبدیلیوں کی کارکن گریٹا تھنبرگ اور ایک صحافی بھی شامل ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے زیر انتظام برطانوی پرچم والی کشتی’ میڈلین ’ غزہ کے محصورین کے لیے امداد لے کر یکم جون کو سسلی سے روانہ ہوئی تھی جسے آج صبح اسرائیلی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا، اور اس پر سوار افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔

قبل ازیں بی بی سی نے ا سرائیلی میڈیا کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ ’ میڈلین ’ اشدود کی بندرگاہ پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ہے تاہم اس کی تازہ ترین لوکیشن نامعلوم ہے۔

اس سے پہلے اسرائیل نے خبردار کیا تھا کہ امدادی کشتی کو غزہ پہنچنے سے روکا جائے گا۔

دریں اثنا اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ’ میڈلین’ کو روکے جانے کے بعد حراست میں لیے گئے 12 فلسطینی حامی کارکنان کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی اسرائیل سے درخواست کی ہے کہ کشتی پر سوار فرانسیسی شہریوں کو ’ جلد از جلد فرانس واپس آنے کی اجازت دی جائے’ ۔

میڈلین پر کون سوار ہے؟

یکو جون کو سسلی سے روانہ ہونے کے بعد سے’ میڈلین’ پر 12 افراد سوار تھے، جن میں شامل ہیں:

گریٹا تھنبرگ سویڈش ماحولیاتی تبدیلی کی کارکن

ریما حسن شام کے ایک فلسطینی مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئیں، اب یورپی پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔

یاسمین آکار جرمن کارکن جو ترکی سے تعلق رکھنے کرد والدین کے ہاں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی۔

تھیاگو آویلا - فریڈم فلوٹیلا برازیل کے کوآرڈینیٹر اور فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے رکن۔

یانس محمدی بلاسٹر، ایک فرانسیسی آزاد میڈیا آؤٹ لیٹ میں صحافی اور ڈائریکٹر۔

عمر فیاض - الجزیرہ مباشر کے نمائندے۔

سرجیو ٹوریبیو -سمندری تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سی شیفرڈ سے تعلق ہے۔

اس کے علاوہ، جہاز پر فرانسیسی ڈاکٹر اور کارکن بیپٹسٹ آندرے، ترک کارکن سویب اوردو، ڈچ انجینئرنگ کے طالب علم مارک وین رینس، فرانسیسی شہری ریوا ویارڈ، اور پاسکل موریراس بھی سوار تھے، جنہوں نے اس سے پہلے بھی فریڈم فلوٹیلا کے دیگر مشنوں میں حصہ لیا ہے۔

’ میڈلین’ کو روکنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، حماس

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ ’ میڈلین’ کو روکنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ایک بیان میں، فلسطینی مسلح گروپ نے جہاز پر موجود کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ان کی حفاظت کیلئے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

حماس نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس جرم کی مذمت کریں اور فوری اقدام کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ ختم کروائیں۔

اسرائیل بین الاقوامی قانون کے لیے’ خوفناک حقارت’ کا مظاہرہ کر رہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کے لیے’ خوفناک حقارت’ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان جاری کیا ہےکہ ’ غزہ کے شہریوں کے لیے خوراک اور ضروری سامان تک محفوظ رسائی کو یقینی بنانا اسرائیل کی بین الاقوامی ذمہ داری’ ہے، مگر اس کے اقدامات بین الاقوامی قانون کے لیے ’ خوفناک حقارت’ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

عالمی تنظیم کی رہنما ایگنس کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ’ اگر اسرائیل کے اتحادیوں نے اپنی کہی گئی باتوں سے غزہ میں امداد کی ترسیل کو یقینی بنادیا ہوتا تو کارکنوں کو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہ پڑتی۔’

دنیا

اسرائیل کا غزہ جانے والی امدادی کشتی کو روکنے کا اعلان

اسرائیل کا غزہ جانے والی امدادی کشتی کو روکنے کا اعلان

اسرائیل کے وزیرِ دفاع نے صہیونی فوج کو غزہ تک امداد پہنچانے والی کشتی کو روکنے کا حکم دے دیا جس میں سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت 12 امدادی کارکن سوار تھے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ میں نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ امدادی کشتی ’مدلین‘ فلوٹیلا کو غزہ پہنچنے سے روکے۔

بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ گریٹا ایک یہود مخالف ہے، اور اس کے ساتھی حماس کے پروپیگنڈا ترجمان ہیں، میں ان سے واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ واپس چلے جاؤ کیونکہ تم غزہ نہیں پہنچو گے۔

’مدلین‘ کے منتظمین نے ہفتے کو جاری بیان میں کہا تھا کہ وہ مصری پانیوں میں داخل ہو چکے ہیں اور غزہ کے قریب پہنچ رہے ہیں، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع اپنے 21ویں ماہ میں داخل ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ ’مدلین‘ ایک کشتی ہے جسے فریڈم فلوٹیلا کولیشن چلا رہی ہے، یہ یکم جون کو اٹلی سے روانہ ہوئی تھی، جس کا مقصد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانا اور فلسطینی علاقے پر اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنا تھا۔

اسرائیل کاٹز کا کہنا تھا کہ اسرائیل کسی کو بھی غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی اجازت نہیں دے گا، جس کا مقصد حماس کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنا ہے، جو ہمارے یرغمالیوں کو قید میں رکھے ہوئے ہے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’اسرائیل سمندر، فضا یا زمین کے ذریعے ناکہ بندی توڑنے یا دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی کسی بھی کوشش کے خلاف کارروائی کرے گا‘۔

’آخری لمحے تک اپنا سفر جاری رکھیں گے‘

فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا ’اسرائیل کی جانب سے کسی بھی حملے یا ہمیں روکے جانے کی توقع ہے‘۔ انہوں نے ان ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشتی پر سوار اپنے شہریوں کی حفاظت کریں۔

پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ ’مدلین‘ اس وقت غزہ سے 160 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے اور جمنگ (ریڈیو سگنل کی مداخلت) نے ہماری لوکیشن کو کچھ وقت کے لیے متاثر کیا، لیکن ہمارا ٹریکر دوبارہ کام کر رہا ہے۔

دریں اثنا، کشتی پر سوار امدادی کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ ’آخری لمحے تک‘ اپنا سفر جاری رکھیں گے۔

یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن نے کشتی سے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم آخری لمحے تک متحرک رہیں گے، جب تک اسرائیل انٹرنیٹ اور نیٹ ورکس بند نہیں کر دیتا جب کہ ہم 12 عام شہری ہیں جو کشتی پر سوار ہیں، ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں، صرف انسانی امداد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست نے کوئی ردعمل نہیں دیا، جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو ہمارے تحفظ کی کوئی ضمانت دیے بغیر بلا روک ٹوک کارروائی کی اجازت دی جا رہی ہے۔

ریما حسن نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ امدادی کارکنوں کے پاس ’اسرائیلی حکام کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے سے پہلے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت‘ رہ گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم آپ سے رابطہ نہیں رکھ پائیں گے، تو میں امید کرتی ہوں کہ آپ وہ مہم جاری رکھیں گے جو اس پورے سفر میں ہمارے لیے نہایت قیمتی رہی ہے جب کہ کشتی پر جرمنی، فرانس، برازیل، ترکی، سویڈن، اسپین اور نیدرلینڈز کے شہری موجود ہیں۔

جرمن انسانی حقوق کی کارکن یاسمین آچار کا کہنا تھا کہ ہمیں ان سے کوئی خوف نہیں، انہوں نے ہمیں جو پیغام بھیجا ہے کہ ہم قریب نہ آئیں، وہ ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر رہا۔

واضح رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ تنازع 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوا، جس کے نتیجے میں 1218 اسرائیل ہلاک ہوئے تھے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں اب تک 54 ہزار 880 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔

دنیا

عید کے دوسرے روز بھی اسرائیلی جارحیت میں 36 فلسطینی شہید

عید کے دوسرے روز بھی اسرائیلی جارحیت میں 36 فلسطینی شہید

غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کم از کم 36 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں سے 6 افراد کو اسرائیلی فوج نے امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز کے قریب نشانہ بنایا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کی مطابق غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے ہفتے کو کم از کم 36 فلسطینیوں کو شہید کیا، جن میں سے 6 افراد ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز کے قریب فائرنگ میں لقمہ اجل بنے۔

یہ شہادتیں جنوبی ضلع رفح میں واقع غزہ ہیومنیٹیرین فنڈ (جی ایچ ایف) کے امدادی مرکز کے قریب ہوئیں، جو حال ہی میں مختصر معطلی کے بعد دوبارہ فعال ہوا ہے، معطلی اسی مقام پر گزشتہ دنوں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد کی گئی تھی۔

اس دوران سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت 12 کارکنوں پر مشتمل ایک امدادی کشتی غزہ کے قریب پہنچ چکی ہے، اس اقدام کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی میں زندگی گزارنے والے فلسطینیوں کی حالتِ زار کو اجاگر کرنا ہے، جو اب بھی جزوی طور پر جاری ہے۔

سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باصل نے اے ایف پی کو بتایا کہ صبح 7 بجے (مقامی وقت) کے قریب اسرائیلی قابض افواج نے العلم چوک کے قریب فائرنگ کر کے 6افراد کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا“۔

غزہ کے شہری مئی کے اواخر سے روزانہ کی بنیاد پر العلم چوک پر جمع ہو رہے ہیں تاکہ تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع جی ایچ ایف کے امدادی مرکز سے امداد حاصل کر سکیں۔

اے ایف پی خود ان اموات کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔

دریں اثنا، اسرائیلی فوج نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کے فوجیوں نے ’ان افراد پر وارننگ شاٹس فائر کیے جو ایسی حرکت کر رہے تھے جو فوجیوں کے لیے خطرہ بن سکتی تھی‘۔

عینی شاہد سمیر ابو حدید نے بتایا کہ جب کچھ لوگ امدادی مرکز کی طرف بڑھنے لگے تو اسرائیلی فوج نے بکتر بند گاڑیوں سے پہلے ہوا میں فائرنگ کی، اور پھر براہ راست شہریوں پر گولیاں چلائیں۔

جی ایچ ایف جو بظاہر ایک نجی تنظیم ہے اور جس کے مالی وسائل غیر واضح ہیں، نے مئی کے آخر میں اپنا کام شروع کیا، جب اسرائیل نے دو ماہ سے جاری امدادی ناکہ بندی میں کچھ نرمی کی۔

تاہم، اقوام متحدہ اور دیگر بڑی امدادی تنظیموں نے جے ایچ ایف کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہے، یہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہ یہ ادارہ اسرائیلی فوجی مقاصد کو فروغ دیتا ہے۔

اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے، اقوام متحدہ نے مئی میں خبردار کیا تھا کہ غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔

دریں اثنا، مدلین نامی امدادی کشتی، جو بین الاقوامی کارکنان کے اتحاد کی جانب سے چلائی جا رہی ہے، ہفتے کے روز غزہ کی طرف روانہ تھی۔ منتظمین کے مطابق، اس کا مقصد اسرائیلی بحری ناکہ بندی کو توڑنا اور امداد فراہم کرنا ہے۔

جرمن انسانی حقوق کی کارکن یاسمین آچار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اب مصری ساحل کے قریب سفر کر رہے ہیں، ہم سب خیریت سے ہیں‘۔

فریڈم فلوٹیلا غزی کے قریب پہنچ گیا

لندن میں قائم بین الاقوامی کمیٹی برائے غزہ نے کہا کہ کشتی مصری پانیوں میں داخل ہو چکی ہے، گروپ کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانونی و انسانی حقوق کے اداروں سے رابطے میں ہے تاکہ کشتی پر سوار افراد کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے، اور کسی بھی ممکنہ رکاوٹ کو بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا جائے گا۔

غزہ پر اسرائیلی بحری ناکہ بندی 7 اکتوبر 2023 کے حملے سے پہلے سے نافذ تھی، اور اسرائیلی فوج نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس ناکہ بندی کو نافذ رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی دیفرن نے منگل کے روز کہا کہ ہم اس صورتِ حال کے لیے تیار ہیں، پچھلے برسوں میں ہم نے کافی تجربہ حاصل کیا ہے اور اسی کے مطابق عمل کریں گے۔“

یاد رہے، 2010 میں ترک جہاز ’ماوی مرمارا پر اسرائیلی کمانڈو کارروائی کے دوران 10 شہری ہلاک ہو گئے تھے، جب یہ جہاز اسی طرح غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔

دریں اثنا، خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن نے گزشتہ روز کسی بھی قسم کی خوراکی امداد تقسیم نہیں کی، جی ایچ ایف نے حماس کی کی دھمکیوں کو کام بند کرنے کی وجہ قرار دیا ہے، تاہم حماس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایسی کسی مبینہ دھمکی کا علم نہیں۔

جی ایچ ایف نے کہا کہ وہ ان غیر واضح خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی کارروائیوں میں تبدیلی لا رہی ہے، بعد میں ایک فیس بک پوسٹ میں ادارے نے بتایا کہ آج دو امدادی مراکز دوبارہ کھولے جائیں گے۔

ایک حماس اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ اسے ایسی کسی دھمکی کے بارے میں علم نہیں ہے۔

حماس کی اقوام متحدہ کو امدادی سرگرمیوں میں تعاون کی پیشکش

بعد ازاں غزہ کی حکومت کے میڈیا دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ جی ایچ ایف کا امدادی نظام ہر سطح پر مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، بیان میں کہا گیا کہ حماس تیار ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی زیرِ قیادت ایک علیحدہ، طویل عرصے سے جاری انسانی امدادی مشن کے تحت امدادی سامان کی فراہمی کو محفوظ بنانے میں مدد دے۔

حماس نے تمام فلسطینیوں سے اپیل کی کہ وہ انسانی امداد کے قافلوں کی حفاظت کریں، حماس کے ایک ذریعے کے مطابق، گروپ کا مسلح ونگ آج سے کچھ اسنائپرز اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام امدادی راستوں کے قریب تعینات کرے گا تاکہ مسلح گروہوں کو امدادی سامان لوٹنے سے روکا جا سکے۔

دنیا

عید پر بھی اسرائیلی مظالم میں کمی نہ آئی، مزید 56 فلسطینی شہید

عید پر بھی اسرائیلی مظالم میں کمی نہ آئی، مزید 56 فلسطینی شہید

عید پر بھی اسرائیلی مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی، غزہ پر چند گھنٹوں کے دوران بمباری سے 56 فلسطینی شہید ہوگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی پر شدید بمباری کی، جس سے 15 فلسطینی شہید ہوئے۔

اس کے علاوہ شمالی علاقے جبالیہ پر حملے میں بھی 11 افراد کے شہید ہوئے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے رفح کے قریب الاخوہ میں امدادی مقام کے قریب انتظار کر رہے افراد پر بمباری کر دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 8 فلسطینی شہید ہو گئے، جس کے بعد غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کی جانب سے آپریشن شروع کرنے کے بعد سے امداد کی تلاش میں شہد ہونے والوں کی تعداد 118 ہو گئی۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 54 ہزار 772 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 25 ہزار 834 زخمی ہو چکے ہیں۔

دنیا

میڈیا کا غزہ تک فوری، لامحدود رسائی دینے کا مطالبہ

میڈیا کا غزہ تک فوری، لامحدود رسائی دینے کا مطالبہ

میڈیا اور آزادی صحافت کی 100 سے زیادہ تنظیموں کے ایک کھلے خط میں غزہ تک فوری اور لامحدود رسائی کے ساتھ ساتھ ان صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے جو اسرائیلی فوج کے اندھا دھند تشدد کے درمیان محصور علاقے سے رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی بین الاقوامی اپیل پر دنیا بھر سے ڈان سمیت 100 سے زیادہ مثالی میڈیا اداروں نے دستخط کیے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہم، دستخط کنندگان، غزہ تک فوری، آزاد اور غیر مشروط طور پر بین الاقوامی میڈیا کی رسائی کی فوری اجازت دینے اور ان صحافیوں کی مکمل حفاظت کی درخواست کرتے ہیں جو محاصرے کے دوران رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’گزشتہ 20 ماہ سے اسرائیلی حکام نے غزہ سے باہر کے صحافیوں کو آزادانہ طور پر فلسطینی سرزمین تک رسائی دینے سے انکار کیا ہے۔‘

غزہ میں کام کرنے والے مقامی صحافیوں کو بے گھر ہونے اور فاقہ کشی کا سامنا ہے اور تقریباً 200 صحافی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ صرف ایک دن پہلے، الجزیرہ نے رپورٹ کیا تھا کہ غزہ شہر کے الاہلی بیپٹسٹ ہسپتال پر اسرائیلی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 3 صحافی تھے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بہت سے لوگ زخمی ہوئے ہیں اور انہیں اپنی ملازمتوں کے لیے مسلسل جان کے خطرات کا سامنا ہے۔

میڈیا اداروں کے کھلے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم جنگی علاقوں سے رپورٹنگ کے اندرونی خطرات کو سمجھتے ہیں۔ یہ وہ خطرات ہیں جو ہماری کئی تنظیموں نے دہائیوں سے تحقیقات کرنے، اور جیسے جیسے واقعات پیش آتے ہیں، انہیں دستاویزی شکل دینے کے لیے مول لیے ہیں‘۔

دنیا

غزہ: امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں 58 فلسطینی شہید

غزہ: امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں 58 فلسطینی شہید

غزہ میں امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی فوج کے حملوں کے نتیجے میں اب تک 58 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 58 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

جنوبی غزہ کے خان یونس میں واقع ناصر ہسپتال میں آج شہید ہونے والے 35 افراد کی لاشیں لائی گئیں، جن میں سے 27 وہ افراد تھے جنہیں رفح گورنری میں امداد کے حصول کے دوران گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔

مرکزی غزہ کے دیر البلح میں واقع الاقصیٰ شہدا ہسپتال میں 6 لاشیں لائی گئیں جب کہ غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کو 14 لاشیں موصول ہوئیں جب کہ 3 مزید لاشیں العربی اہلی ہسپتال منتقل کی گئیں۔

ناصر ہسپتال کے طبی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں جنوبی غزہ کے خان یونس کے علاقے جورا میں کم از کم 4 فلسطینی شہید ہوئے۔

مرکزی غزہ کے دیر البلح میں ایک علیحدہ اسرائیلی حملے میں 3 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

’شہریوں کو خوراک سے روکنا بھی جنگی جنون کے زمرے میں آتا ہے‘

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے غزہ میں امریکا کی حمایت یافتہ امدادی مقامات کے قریب 100 سے زائد فلسطینیوں کے قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لارنس نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی شخص کس قدر بھوک سے مجبور ہو کہ وہ طویل فاصلہ طے کر کے خوراک کے لیے جا رہا ہو، اور اسے یہ خوف ہو کہ اسے گولی مار دی جائے گی یا وہ خالی ہاتھ واپس آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ قحط کے خطرے سے دوچار ہیں، شہریوں کو نشانہ بنانا ’بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی‘ ہے، یہ جنگی جرم ہے جب کہ جان بوجھ کر شہریوں کے لیے خوراک یا دیگر بنیادی اشیا کی رسائی روکنا بھی ’ممکنہ طور پر جنگی جرم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

’غزہ میں بچوں نے جو دیکھا، وہ بھلا نہیں سکتے‘

سیو دی چلڈرن کی غزہ میں امدادی کارروائیوں کی ڈائریکٹر جارجیا ٹیسی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امدادی کارکنوں کو ’بندھے ہوئے ہاتھوں‘ کے ساتھ کام کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم صرف کچھ بنیادی خدمات فراہم کر رہے ہیں، جب کہ ہم معمول کی امداد جیسے خوراک، صفائی کے کٹس کی فراہمی بھی نہیں کر پا رہے کیونکہ ہمارے گودام خالی ہیں اور ہمارا سارا سامان ہزاروں ٹرکوں میں سرحد پر پھنسا ہوا ہے۔

جارجیا ٹیسی نے کہا کہ یہاں غصے، مایوسی اور بے بسی کے جذبات کی ایک لہر سی چل رہی ہے، میں اس شعبے میں 20 سال سے کام کر رہی ہوں، مگر ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ نظام ناکامی کے لیے ہی بنایا گیا ہے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ سرحدیں کھولی جائیں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیا جائے جب کہ بچے وہ سب کچھ بھلا نہیں سکتے جو انہوں نے دیکھ لیا ہے۔

نقطہ نظر

مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر: ’وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے‘

مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر: ’وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے‘

گزشتہ ہفتے پیر 26 مئی کو اسرائیل نے یومِ یروشلم منایا۔ یہ وہ دن ہے جب اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس دن کی تقریبات میں انتہائی دائیں بازو کے ہزاروں اسرائیلیوں کو سڑکوں پر نکل کر عربوں کو ہراساں کرنے کی قومی تفریح میں مشغول دیکھا گیا۔

اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کی موجودگی اور ان کی حمایت سے ہجوم نے مسلم کوارٹر کی جانب مارچ کیا جہاں انہوں نے ’عربوں کو موت دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کا مذاق اڑایا جبکہ اسلام اور اس کی معزز شخصیات کے خلاف گستاخانہ نعرے بلند کیے۔ یہ تمام سرگرمیاں اسرائیلی پولیس کے حفاظتی حصار میں کی گئی۔

ماضی کی روایات کے مطابق ان اسرائیلیوں نے الاقصیٰ کے احاطے پر بھی دھاوا بولا جہاں انہوں نے گانا گایا، رقص کیا اور تلمودی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے نکبہ اور فلسطینیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ نسل کشی کی حمایت کرنے والے ایک اہم نام اور صہیونی حکومت کے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموترخ نے بھی اس موقع پر تقریر کی اور ’فتح‘، قبضے’ اور ’آبادکاری‘ کو اپنے سب سے قیمتی مقاصد کے طور پر بیان کیا۔

ان کا ایک اور بیان جو ان کے سامعین کے کانوں میں شہد گھول گیا وہ ان کی جانب سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد الاقصیٰ کے مقام پر ’ٹیمپل‘ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی مسجد اقصیٰ کے زیرِزمین بڑی سرنگ پر ٹہلتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ سرنگیں آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے لیے بنائی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ زیرِزمین کھدائی کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ایسا کوئی آثارِ قدیمہ کا ثبوت تلاش کرنا ہے جو انہیں ٹیمپل ماؤنٹ (جسے عرب حرم الشریف کہتے ہیں) پر اپنے مکمل قبضے کا جواز فراہم کرسکے۔ یوں وہ آخرکار نام نہاد تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کی تعمیر کرسکیں۔

اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کیا تھے؟ تو پہلا ہیکل تقریباً 957 قبلِ مسیح میں تعمیر ہوا تھا جسے چند صدیوں بعد یروشلم کے محاصرے کے دوران سلطنت بابل نے تباہ کر دیا تھا۔

دوسرا ہیکل 538 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے بھی 70ء میں سلطنت روم کے خلاف یہودیوں کی خونریز اور بدقسمت بغاوت کے نتیجے میں رومی حکمرانوں نے تباہ کردیا تھا۔

دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے صرف اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی ہے جو آج ’ویلنگ وال‘ کہلاتی ہے جہاں تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو جانا پڑتا ہے اور یہاں ان کے لیے اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔

تو نئے ہیکل کی تعمیر کیوں؟ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کیوں ضروری ہے؟ بعض یہود مذہبی دھڑوں میں یہ غالب سوچ پائی جاتی ہے کہ مسیحا کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ مسیحا ممکنہ طور پر یہودی بالادستی کے ایک نہ ختم ہونے والے سنہری دور کا آغاز کرے گا جس میں دیگر تمام قومیں ان کی مرضی کی تابع ہوجائیں گی۔

لیکن اس کے لیے پہلے مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس کے حق میں سب سے پہلی حقیقی آواز شلومو گورین نے اٹھائی جو اسرائیلی ’دفاعی‘ افواج کے سابق چیف ربی تھے۔ 1967ء میں وہ 50 یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں دعاؤں کی غرض سے لے گئے اور وہاں ہیکل کی تعمیرِنو کا مطالبہ کیا۔

یہ وہ دور تھا جب اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں عرب آبادی کو قطعی طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں شاندار فتح کے باوجود اپنے عرب ہمسایوں کو ایک اور جنگ کا جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کسی حد تک احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ربی شلومو گورین کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے چیف ربیوں نے حکم دیا کہ یہودیوں کے لیے رسمی ناپاکی کی وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ٹیمپل میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ ان رسمی ناپاکی کی وجوہات کو اس کالم میں بتانا انتہائی مشکل ہے۔

سرکاری حکم نامے کے باوجود زیرِزمین کھدائی (اسرائیل کی مذہبی وزارت کے زیرِاہتمام) کا کام اسی سال شروع ہوا اور مسلم کوارٹر کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد بھی یہ کام جاری ہے۔

لیکن 2025ء کا اسرائیل 1967ء کے اسرائیل سے انتہائی مختلف ہے کیونکہ یہ ایک قابض بالادست طاقت بن چکی ہے جو فلسطینیوں کی قومیت کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت تو انتہائی مذہبی منافرت اور تشدد سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ اس کے رنگ میں ڈوبا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بھی اسرائیل ایسا ہی کرتا رہے گا۔

آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ انجیلی مسیحیوں کے مطابق وہ یہودیوں سمیت پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے (پھر چاہے وہ تبدیلی آگ اور تلوار سے ہی کیوں نہ لائی جائے) لیکن فی الحال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

دنیا

غزہ: امریکی امدادی مرکز پر اسرائیلی حملے میں 27 فلسطینی شہید، اقوام متحدہ کا تحقیقات کا مطالبہ

غزہ: امریکی امدادی مرکز پر اسرائیلی حملے میں 27 فلسطینی شہید، اقوام متحدہ کا تحقیقات کا مطالبہ

جنوبی غزہ کے رفح علاقے میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کم از کم 27 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے امدادی مرکز پر پیش آیا، جو اسرائیل اور امریکا کی حمایت یافتہ تنظیم ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 27 مئی سے روزانہ رپورٹ ہونے والی غزہ میں امداد کے متلاشی افراد پر فائرنگ کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، یہ وہ دن ہے جب جی ایچ ایف نے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے 3 فوجی شمالی غزہ کے جبالیہ علاقے میں شہید ہوئے ہیں، یہ واقعہ مارچ میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک کا سب سے مہلک حملہ ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ میں اب تک کم از کم 54 ہزار 381 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 24 ہزار 54 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیر قیادت حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، جب کہ 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

مجاہدین موومنٹ ’امدادی قتل عام‘ کی مذمت

فلسطینی مجاہدین موومنٹ نے رفح میں ’امدادی قتل عام‘ کی مذمت کی ہے۔

گروپ نے غزہ میں امداد حاصل کرنے والوں پر مہلک حملوں کو ’امریکی-صہیونی جرم قرار دیا، جو فلسطینی عوام کے خلاف منظم ظلم و ستم اور ناانصافی کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔

فلسطینی مجاہدین موومنٹ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری بیان میں بھوک اور محاصرے کی پالیسی، جاری نسل کشی، نسلی جرائم، بین الاقوامی خاموشی اور ملی بھگت کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مظالم کی تازہ ترین مثال صہیونیوں کی وہ ہولناک قتل و غارت گری ہے، جو بھوکے اور محصور افراد کے خلاف اُس وقت کی گئی جب وہ رفح کے علاقے المواسی میں امداد حاصل کرنے جا رہے تھے۔

اسرائیلی فوج کا امداد کے مقام پر فائرنگ کا اعتراف

اسرائیلی فوج نے غزہ میں امدادی مرکز کے قریب فائرنگ کا اعتراف کرلیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے دستوں نے غزہ میں امریکی حمایت یافتہ جی ایچ ایف کے امدادی مرکز سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر موجود فلسطینیوں پر فائرنگ کی۔

ٹیلیگرام پر انگریزی میں جاری کردہ ایک بیان میں فوج نے کہا کہ دستوں نے کئی مشتبہ افراد کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا، جو مقررہ رسائی کے راستوں سے ہٹ کر آ رہے تھے۔

دستوں نے پہلے انتباہی فائرنگ کی اور جب مشتبہ افراد پیچھے نہیں ہٹے تو چند افراد کے قریب مزید فائرنگ کی گئی جو دستوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ فوج کو جانی نقصان کی اطلاعات کا علم ہے اور واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

امریکی-صہیونی امدادی مراکز موت کا پھندا

چیریٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی حمایت یافتہ امدادی تقسیم کے نظام کو غیر انسانی قرار دیا گیا ہے۔

فلسطینی میڈیکل ریلیف سوسائٹی کے ڈائریکٹر، بسام زقوت نے امریکا کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کی امدادی تقسیم کی جگہوں پر صورتحال کو ’موت کا پھندا‘ قرار دیا ہے۔

انہوں نے غزہ شہر سے الجزیرہ کو بتایا کہ ’سچ کہوں تو یہ ایک غیر انسانی عمل اور جنگی جرم ہے ، براہ راست ان شہریوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں جو امداد کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں‘۔

بسام زقوت نے کہا کہ کوئی واضح معیار مقرر نہیں کہ کس دن کون امداد حاصل کرنے کا حق دار ہے۔

دنیا

تباہ حال غزہ میں ایک کلو آٹے کی قیمت ساڑھے 5 ہزار روپے تک جاپہنچی

تباہ حال غزہ میں ایک کلو آٹے کی قیمت ساڑھے 5 ہزار روپے تک جاپہنچی

اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ سے تباہ حال شہر غزہ میں آٹے کی قیمت 20 ڈالر (تقریباً 5 ہزار 500 روپے) فی کلو تک پہنچ گئی، اسرائیلی محاصرے نے خاندانوں کو خوراک کی تلاش پر مجبور کر دیا۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی آٹے کی منڈیاں محاصرے کے بعد بقا کے لیے جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کے لیے امتحان بن چکی ہیں، اور سنگ دل معیشت کو ظاہر کرتی ہیں، دنیا بھر میں اوسطاً ڈیڑھ ڈالر فی کلو فروخت ہونے والا آٹا اسرائیلی پابندیوں کے باعث اب 20 ڈالر فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔

غزہ میں جنگ سے پہلے کی یومیہ اجرت محض 18 ڈالر تھی، اب بے روزگاری عام ہے، خاندان آٹے کی قلیل مقدار کو دنوں تک چلاتے ہیں اور محصور فلاحی کچن پر انحصار کرتے ہیں۔

والدین ناقابلِ تصور فیصلوں کا سامنا کر رہے ہیں، یا تو انتہائی مہنگی قیمت ادا کریں یا اپنے بچوں کو کھانے کی بھیک مانگتے دیکھیں، جب کہ غذائی قلت سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بیوائیں اور دیگر کمزور طبقات شدید مشکلات کا شکار ہیں، جو اکثر اس امداد پر انحصار کرتے ہیں جو اب شاذ و نادر ہی ان تک پہنچتی ہے۔

امریکا اور اسرائیل اپنی حمایت یافتہ فلاحی تنظیموں کے مراکز سے امداد تقسیم کر رہے ہیں، تاہم مقامی ماہرین نے ان امدادی مراکز کو ’موت کا پھندا‘ قرار دیا ہے، جہاں جانے والے فلسطینیوں کو گھیر کر باقاعدہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اسی طرح کے ایک واقعے میں آج بھی 35 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، جو امداد لینے رفح کے امدادی مرکز گئے تھے، جہاں صہیونی فورسز نے ان پر گولیاں برسا دی تھیں۔

دنیا

غزہ: اسرائیلی فورسز کی امداد لینے کیلئے جمع ہونیوالے فلسطینیوں پر فائرنگ، 36 شہید، 120 زخمی

غزہ: اسرائیلی فورسز کی امداد لینے کیلئے جمع ہونیوالے فلسطینیوں پر فائرنگ، 36 شہید، 120 زخمی

اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ میں ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر جمع ہونے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 36 افراد شہید اور 120 زخمی ہو گئے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنوبی اور وسطی غزہ میں امریکی امدادی تقسیم کے مراکز پر جمع ہونے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں رفح میں کم از کم 35 افراد اور نیٹرازیم کوریڈور کے قریب ایک شخص شہید ہوا۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کو اس وقت ’دنیا کا سب سے زیادہ بھوکا مقام‘ قرار دیا جا رہا ہے، اور یہ انسانی امداد کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی جانے والی مہم بن چکی ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ رفح میں امدادی مرکز پر فائرنگ کے واقعے سے لاعلم ہے۔

اسرائیلی فوج نے ٹیلیگرام پر انگریزی میں جاری ایک بیان میں کہا کہ وہ فی الحال ان زخمیوں سے لاعلم ہیں، جو امداد کی تقسیم کے مقام پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے زخمی یا شہید ہوئے، واقعے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، اسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ کے دوران اب تک کم از کم 54 ہزار 381 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

غزہ کی حکومت کے میڈیا دفتر نے بتایا ہے کہ شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر گئی ہے، ہزاروں افراد جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، انہیں مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔

7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد مارے گئے تھے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

9 بچوں کو کھونے والی لیڈی ڈاکٹر کے شوہر بھی شہید

اسرائیلی فضائی حملے میں زخمی ہونے والے ڈاکٹر حمدی النجار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں۔

النجار کئی دنوں تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِ علاج رہے، اس بمباری میں ان کے 9 بچے بھی شہید ہوئے تھے، اور 11 سالہ بیٹا اس حملے کا واحد زندہ بچ جانے والا فرد ہے۔

ان کی اہلیہ، علاالنجار، جو خود بھی ڈاکٹر ہیں، حملے سے چند گھنٹے قبل کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔

یاد رہے کہ 25 مئی کو غزہ میں اسرائیلی حملے میں خاتون ڈاکٹر کے 10 میں سے 9 بچے شہید، جب کہ ان کے شوہر اور ایک بیٹا زخمی ہوگیا تھا، حملے کے وقت ڈاکٹر علا النجار نصر ہسپتال میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں۔

امریکا، اسرائیل کے امدادی مراکز ’موت کا جال‘

غزہ میں حکومت کے میڈیا دفتر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل نے رفح میں ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر حملہ کرکے کم از کم 22 افراد کو شہید اور 115 کو زخمی کر دیا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شہدا کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے امدادی مقامات پر پچھلے ایک ہفتے کے دوران شہدا کی تعداد کم از کم 39 ہو گئی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 220 سے تجاوز کر گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ شہادتیں ’ان علاقوں کی حیثیت کو انسانی امداد کے مراکز کے بجائے ’موت کے جال‘ کے طور پر ظاہر کرتی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم پوری دنیا کو تصدیق کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ امداد کا ایک منظم اور بدنیتی پر مبنی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہے، جس کا مقصد بھوکے شہریوں کو بلیک میل کرنا اور انہیں جان بوجھ کر ایسے کھلے مقامات پر اکٹھا کرنا ہے جہاں انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔

یہ مقامات قابض فوج کے زیر انتظام اور نگرانی میں ہیں، اور ان کی مالی معاونت اور سیاسی سرپرستی قابض حکومت اور امریکی انتظامیہ کر رہے ہیں، جو ان جرائم کی مکمل اخلاقی اور قانونی ذمہ دار ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ اردن پہنچ گئے

سعودی وزیر خارجہ غزہ کے معاملے پر اجلاس کے لیے اردن پہنچ گئے

سعودی عرب کے وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود، غزہ کی پٹی پر جاری جنگ اور محاصرے کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں ایک وزارتی اجلاس میں شرکت کے لیے اردن پہنچے ہیں۔

یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب اسرائیلی حکام نے اس ہفتے کے آخر میں مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں عرب وزرائے خارجہ کے وفد کو جمع ہونے سے روک دیا تھا۔

قبل ازیں اطلاعات ملی تھیں کہ سعودی وزیر خارجہ نے اپنا مغربی کنارے کا دورہ ملتوی کردیا ہے۔

نیتن یاہو کو جنگ ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں

الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی، اسٹیو وٹکوف، کی پیش کردہ تجویز کو قبول کر لیا ہے۔

اس بیان میں حماس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس تجویز کو مسترد کر رہی ہے، حالاں کہ فلسطینی گروپ نے کہا ہے کہ وہ اس پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم، حماس نے کچھ شرائط بھی رکھی ہیں جو ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔

یہ ان کی ابتدائی شرائط میں شامل ہے، جب سے جنگ بندی کا معاہدہ مارچ میں اس وقت ٹوٹا جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر دوبارہ بمباری شروع کر دی تھی۔

یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ ان مذاکرات کے آغاز سے ہی اسرائیلی وزیرِ اعظم واضح کر چکے ہیں کہ وہ جنگ کے خاتمے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور ان کے کچھ سخت مؤقف ہیں جنہیں وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے اختتام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

ان میں حماس کو مکمل غیر مسلح بنانا اور یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔

اس کے علاوہ، ان شرائط میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کا وہ منصوبہ بھی شامل ہے، جس میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے کی بات کی گئی تھی، جس کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر نسلی تطہیر قرار دیا جا رہا ہے۔

آغاز ہی سے اسرائیلی فریق جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا، اور اب اسرائیلی وزیرِ اعظم حماس پر ان مذاکرات کی ناکامی کا الزام ڈال رہے ہیں۔

لیکن نیتن یاہو کو اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، جو انہیں اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ اب تک کوئی معاہدہ کیوں نہیں ہو سکا۔

مغربی اتحادیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کی مخالفت

غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کو 600 سے زائد دن گزرنے کے بعد، اسرائیل کے کچھ قریبی اتحادیوں نے اس کے اقدامات کی مذمت کرنا شروع کر دی ہے۔

عالمی بیانیے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ، اسرائیل میں بھی نیتن یاہو حکومت کی جنگی حکمت عملی کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت میڈیا کی کوریج میں جھلکنے لگی ہے، جس سے وہ اتفاق رائے ٹوٹنے لگا ہے جو 7 اکتوبر 2023 سے قائم تھا۔

اس حوالے سے جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے علاوہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیراعظم سرکیئراسٹارمر نے نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سے نسل کشی کی شدید مذمت کی ہے اور اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مغرب کی خاموشی اس کی ساکھ ختم کر دے گی۔

دنیا

جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا جواب ناقابل قبول ہے، اسٹیو وٹکوف

جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا جواب ناقابل قبول ہے، اسٹیو وٹکوف

امریکا کے مرکزی مذاکرات کار نے امریکی حمایت یافتہ غزہ جنگ بندی منصوبے کے جواب میں حماس کے مؤقف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے قطعی ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ 10 زندہ قیدیوں کو رہا کرے گی اور 18 لاشیں واپس کرے گی تاہم اس کے بدلے میں ایک طے شدہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے حماس کے جواب کو مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہمیں پیچھے لے جاتا ہے، انہوں نے حماس پر زور دیا کہ وہ ہماری طرف سے پیش کردہ تجویز کو قبول کرے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں کہاکہ ’یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم آنے والے دنوں میں ایک 60 روزہ جنگ بندی معاہدے کو حتمی شکل دے سکتے ہیں، جس کے تحت زندہ مغویوں اور جاں بحق افراد میں سے آدھوں کو ان کے خاندانوں کے پاس واپس لایا جا سکے گا اور پھر ہم نیک نیتی سے مستقل جنگ بندی کے لیے بامعنی مذاکرات کر سکتے ہیں‘۔

حماس کے سیاسی بیورو کے ایک ذرائع نے کہا کہ گروپ نے وٹکوف کو ایک مثبت جواب دیا ہے، لیکن اس بات پر زور دیا گیا کہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے مؤقف کی تائید کی اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ اپنے انکاری رویے سے چمٹی ہوئی ہے۔

دنیا

اسرائیل نے عرب وزرائے خارجہ کو مغربی کنارے کا دورہ کرنے سے روک دیا

اسرائیل نے عرب وزرائے خارجہ کو مغربی کنارے کا دورہ کرنے سے روک دیا

مصر، اردن، قطر، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کو فلسطینی صدر کی دعوت پر اتوار کو مغربی کنارے کا دورہ کرنا تھا جسے اسرائیل نے روک دیا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عرب وزرائے خارجہ کا کل (اتوار) کو رام اللہ کا دورہ شیڈول تھا تاہم اسرائیل نے مصر، اردن، سعودی عرب اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کو روک دیا۔

اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صہیونی ریاست فلسطینی انتظامی دارالحکومت رام اللہ میں ہونے والے مجوزہ اجلاس کی اجازت نہیں دے گا۔

خیال رہے کہ یہ اجلاس ایک بین الاقوامی کانفرنس سے قبل منعقد ہونا تھا، جس کی مشترکہ میزبانی فرانس اور سعودی عرب کریں گے۔

یہ کانفرنس 17 سے 20 جون تک نیویارک میں منعقد ہونے والی ہے، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے مسئلے پر بات چیت کی جائے گی۔

اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ عرب وزرائے خارجہ فلسیطینی ریاست کے قیام پر بات چیت کے خواہشمند ہے تاہم فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیں گے۔

اردن کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اعلیٰ عرب حکام کے وفد (اردن، مصر، سعودی عرب اور بحرین) کے وزرائے خارجہ نے رام اللہ کا دورہ ملتوی کر دیا ہے کیونکہ ’اسرائیل نے اس میں رکاوٹ ڈالی‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ رکاوٹ ’ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کی ذمہ داریوں کی واضح خلاف ورزی‘ ہے۔